تمباکو پاکستان میں سب سے بڑا خاموش قاتل ہے،ماہرین صحت

اسلام آباد(نیوزڈیسک )حکومت پاکستان مالی سال 24۔2023 میں تمباکو کے شعبے سے 364 ارب کما سکتا ہے تاہم اس کیلئے اگر حکومت ہمارے نوجوانوں کو تمباکو کے نقصانات سے بچانا چاہتی ہے تواسے سگریٹ پر ایف ای ڈی بڑھانے کے فروری 2023 کے اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ان خیالات کا اظہارصحت کے کارکنوں نیسوسائٹی فاردی پروٹیکشن آف دی رائٹس (سپارک)کی طرف سے ایک بیان میں کیا گیا۔ کارکنوں کے مطابق اس اضافی آمدنی کو صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ملک عمران، مہم برائے تمباکو فری کڈز(سی ٹی ایف کے)کے کنٹری سربراہ کے مطابق تمباکو پر زیادہ ٹیکس حکومت کیلیے ایک جیت کی صورتحال ہے یہ فیصلہ ملک کو ایک ہی وقت میں آمدنی پیدا کرنے اور تمباکو کی کھپت کو کم کرنے میں مدد کرتا ہیورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی اس کی سفارش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت حکومت پاکستان کی جانب سے بچوں اور کم آمدنی والے طبقے کو تمباکو کے نقصانات سے بچانے کیلیے موجودہ سال میں کیے گئے عظیم کام کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ملک عمران نیکہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نیجو اچھا کام کیا ہیاسے ضائع نہیں ہونا چاہیے حکومت معیشت کو مستحکم کر سکتی ہے اور شہریوں کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے جب تک کہ وہ تمباکو کی صنعت کی دھوکہ دہی کی مہم سے باز نہیں آتی۔ڈاکٹر ضیا الدین اسلام، سابق ٹیکنیکل ہیڈ ٹوبیکو کنٹرول سیل وزارت صحت نے کہا کہ غلط معلومات پرمبنی مہم پر کروڑوں خرچ کرنے کے باوجود تمباکو کی صنعت کے جھوٹ اب پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال تمباکو کی صنعت نے ٹیکسوں میں اضافے سے بچنے اور ٹیکس پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے فرنٹ لوڈنگ اور پیداوار میں اچانک تبدیلی جیسے حربوں پر عمل کیا ہے تمباکو کی صنعت نے بجٹ میں ایف ای ڈی کو واپس لینے کیلیے حکومت پر دبا ئوڈالنے کیلیے غیر قانونی تجارت کے بہت زیادہ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو پاکستان میں سب سے بڑا خاموش قاتل ہے کیونکہ ہر سال 170,000 سے زائد افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس وبائی بیماری کی وجہ سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ بھی پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔اسپارک کے پروگرام منیجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ تمباکو کی صنعت نے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوسطا پاکستانی سگریٹ نوشی اپنی ماہانہ آمدنی کا 10 فیصد سگریٹ پرخرچ کرتے ہیں، 6 سے15 سال کی عمرکے تقریبا 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں ملک میں نابالغوں اور تعلیمی اداروں کے قریب سگریٹ کی فروخت مسلسل تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے لہذا ایف ای ڈی میں اضافہ سگریٹ کو کم آمدنی والے شہریوں اور بچوں کی پہنچ سے دور کر دے گا اور اس طرح انہیں نقصان سے دور کر دے گا۔