صدرپاکستان کی بے بسی اور معافیاں

٭ …ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ڈھونگ ڈرامے!! صدر مملکت کے باوقار ترین عہدہ کے منصب دار کی درجہ چہارم کے ملازم سے بھی کم تر کہانیاں! نیا پٹارا کھول دیاO کراچی کی یونیورسٹی کی گورنر ٹیسوری، فریال تالپور، سید مراد علی شاہ، آرمی چیف اور انصار برنی کو پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگریوں کی منظوری (کس میرٹ پر؟ کوئی وضاحت نہیں)، نیا خوفناک سکینڈل، راوی ’’شاہد خاقان عباسی‘‘ آخری دو تین دنوں میں قومی اسمبلی نے 54 بِل منظور کئے، ان میں 25 یونیورسٹیوں کی منظوری شامل تھی۔ ہر یونیورسٹی نے بل منظور کرانے کے لئے ارکان اسمبلی کو 15 سے25 کروڑ روپے تک فی رکن رشوت دی‘‘ O بشریٰ بیگم عرف پنکی کی فرنٹ پرسن ایجنٹ فرحت شہزادی کی ایک سال 2019ء کی بنک سٹیٹمنٹ! گوگی نے 6 دفعہ مختلف اقساط میں بنک میں 52 کروڑ روپے جمع کرائے (صرف ایک سال، ڈپٹی کمشنروں کو من پسند شہر دلانے کے لئے 3 کروڑ روپے تک ’رشوت‘ لینے کا الزام! O عمران خان، بی کلاس نہ ہونے والی جیل میں اے کلاس سہولتیں، چار کمرے، بیڈ روم، بیت الخلا روم، واش روم وغیرہ، جیل کا کھانا تین ڈاکٹر چیک کرتے ہیں، شیو کا سامان، شیشہ، پنکھا، میز کرسی…اور…اور اسرائیل کے مشہور ناول نگار ’والوو‘ کا ناول فراہم!O فردوس عاشق اعوان کی پیش گوئی، ’’سب پکڑے جائیں گے‘‘ O رانا ثناء اللہ کا پیپلزپارٹی کے خلاف طنزیہ بیانO سندھ، 27 سابقہ وزیروں، مشیروں نے بنگلے اور گاڑیاں واپس نہیں کیں!O خیرپور: مقتول10 سالہ فاطمہ کے پوسٹ مارٹم سے لرزہ خیز انکشافات، متعدد ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں، جسم پر تشدد کے متعدد نشانات، جنسی تشدد، گلا دبا کر قتل کیا گیا، زیر حراست مبینہ قاتل سید اسد شاہ کی حویلی سے بھاگنے والی ایک اور کم سن ملازمہ اجالا کی یہی داستانO شاہ محمود قریشی کے بعد تحریک انصاف کے باغی رہنما اسد عمر بھی سائفر کیس میں گرفتارO عمران خان، سائفر کیس میں بھی گرفتار، ابھی پانچ اہم مقدموں میں مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔
٭ …چونکا دینے والی مختصر بہت سی خبریں باقی ہیں۔ ہر خبر چیختی چنگاڑتی، آج میں سینکڑوں ریوڑی ایوارڈوں کا ذکر کرنا چاہتا تھا خاص طور پر پرائڈ آف پرفارمنس (تمغہ افتخار فن) کا جس کے ساتھ 10 لاکھ روپے نقد بھی دیئے جاتے ہیں۔ ماضی میں اقربا نوازی کے بہت سے قصے چلے مگر اس بار تو انتہا ہو گئی۔ ٭ …گزشتہ روز صدر عارف علوی نے ایک ڈرامائی اعلان کے ذریعے ملک بھر میں زلزلہ کی کیفیت پیدا کر دی۔ اعلان کیا کہ پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے جو بِل منظور کئے تھے، میں نے بطور صدر ان پر دستخط نہیں کئے اور اپنے عملے کو انہیں واپس پارلیمنٹ کو بھیجنے کی ہدائت کی تھی مگر عملے نے میری ہدائت پر عمل نہیں کیا۔ صدر عارف علوی نے تاثر دیا کہ میں نے دستخطوں کے بغیر دونوں بل اپنے عملے کو دے دیئے تھے۔ قارئین کرام پہلے تو دستخطوں کا مسئلہ پھر عملے کے اقدام کے بارے میں پڑھئے۔ آئین کی دفعہ 75 میں واضح طور پر درج ہے کہ صدر کِسی بل پر دستخط کر دے تو قانون بن جاتا ہے۔ دستخط نہ کرنا چاہے تو اپنے تحریری اعتراضات و رائے کا تحریری طور پر مراسلہ بھیجتا ہے، اس میں تمام اعتراضات تفصیل کے ساتھ درج ہوتے ہیں۔ یہ بِل باقاعدہ گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے ایوان صدر میں پہنچتے ہیں اور اس طرح پارلیمنٹ کو واپس جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کسی بل کو کسی ترمیم کے ساتھ یا اس کے بغیر دوبارہ صدر کو بھیج دے تو وہ 10 دنوں میں خود بخود قانون بن جاتا ہے۔ ایک تیسرا اور نہائت اہم پہلو یہ ہے کہ صدر مملکت پہلی بار بل پر دستخط نہ کرے اور اسے واپس بھی نہ بھیجے تو 10 دنوں کے بعد وہ خود بخود قانون بن جائے گا۔ صدر عارف علوی نے یہی کلام کیا، نہ تو بلوں پر دستخط کئے نہ ہی انہیں واپس بھیجا۔ آیئے دیکھتے ہیں پارلیمنٹ اور ایوان صدر کے درمیان خط و کتابت کیسے ہوتی ہے۔ طے شدہ اور منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ سے کوئی فائل صدر کے معائنے اور دستخطوں کے لئے ایوان صدر میں پہنچتی ہے تو اس کے پہلے صفحہ پر دائیں طرف ایک سیکشن افسر (گریڈ 17) اس پر نوٹ لکھتا ہے کہ یہ فائل کِس موضوع کے بارے میں ہے؟ اس کے بعد ایک اسسٹنٹ سیکرٹری، پھر ڈپٹی سیکرٹری، جائنٹ سیکرٹری اور آخر میں 22 گریڈ کا سیکرٹری اس فائل کا خلاصہ درج کرتا ہے۔ اور اسے صدر کو پیش کر دیتا ہے۔ صدر اس پر دستخط کرے یا اعتراض کرے تو یہ فائل انہی پانچ افسروں کے پاس گزرتی ہوئی پارلیمنٹ میں پہنچائی جاتی ہے۔ ہر افسر کے پاس اس فائل کا ریکارڈ مستقل محفوظ رہتا ہے۔ اب صدر عارف علوی کی بات کہ دستخط نہیں کئے اور افسروں نے فائل واپس بھیجنے کے بارے ان کے حکم کی تعمیل نہیں۔ ایوان صدر میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں پایا گیا جس میں صدر کی طرف سے آرمی اور سیکرٹ بِلوں کے بارے میں صدر کے اعتراضات وغیرہ پائے گئے ہوں۔ انتہائی اونچے درجے میں اتنے اہم ترین معمولات محض زبانی انجام نہیں دیئے جا سکتے۔ ایک ایک لفظ اور حرف محفوظ ہوتا ہے۔ اب یہ ہوا ہے کہ صدر علوی نے اپنے ذاتی اکائونٹ سے ٹویٹ کیا ہے کہ میرے عملے نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اطلاعات اور قانون کے نگران وزراء نے فوری طور پر پریس کانفرنس میں جواب دیا ہے کہ صدر عارف علوی کی طرف دستخط نہ کرنے کے بارے میں وزارت قانون کو کوئی دستاویز موصول نہیں ہوئی۔ صدر علوی بھی ایسی کسی دستاویز کا ذکر نہیں کر رہے۔ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’میں نے فائل پارلیمنٹ کو بھیجنے کو کہا تھا، اس پر عمل نہیں۔ ہوا یہ کہ صدر نے بلوں پر دستخط نہیں کئے اور فائل کو 10 دن پڑے رہنے دیا حتیٰ کہ بِل خود بخود قانون بن گئے۔ پارلیمنٹ بلکہ ایوان صدر کے پاس بھی صدر علوی کے اعتراضات وغیرہ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ہوا یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی اور اس کے بعد اسد عمر اور تحریک انصاف کے دوسرے اہم رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں تو عارف علوی صاحب نے خدا تعالیٰ اور متاثرین سے معافیاں مانگنی شروع کر دی ہیں ایک ایٹمی طاقت والے اسلامی ملک کا صدر ٹیلی ویژنوں پر کس انداز میں عاجزانہ معافیاں مانگ رہا ہے! استغفراللہ! ٭ …ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا بیان: ’’اس بار انتخابی نتائج جلدی مرتب کرنے کیلئے ایک لاکھ 26 ہزار ڈیجیٹل ٹیبلٹس، خریدے گئے ہیں ۔ (اربوں کے اخراجات!! کتنی تجوریاں بھر گئیں!) اس خریداری کے باعث انتخابات میں تاخیر ہو گئی ہے‘‘ ٭ …منظور پشتین کی پارٹی کے حامی سابق رکن قومی اسمبلی کو جی ٹی روڈ پر جلسہ سے خطاب کرنے، ٹریفک روکنے اور حساس اداروں کے خلاف تقریر کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت نے 14 روز کا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ اس کے ساتھ سابقہ وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کو بھی ’اداروں‘ پر تنقیدی تقریر پر گرفتار کر لیا گیا۔ ایمان مزاری نے جی ایچ کیو پر ناقابل اشاعت تنقید کی تھی۔ اسے لیڈی پولیس گھسیٹ کر لے گئی۔ پولیس شیریں مزاری اور ایمان مزاری اور سکیورٹی گارڈ کے تمام موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ بھی ساتھ لے گئی۔ ٭ …کراچی: شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی نے پانچ افراد کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ ان میں ایم کیو ایم کے گورنر ٹیسوری، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور، پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، انصار برنی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام شامل ہیں۔ انصار برنی معروف رفاہی رضا کار ہیں، مگر باقی؟؟؟ ماضی میں 1979ء میں پنجاب یونیورسٹی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ میں نے وائس چانسلر خیرات ابن رسا سے پوچھا کہ جنرل ضیاء الحق کی کن علمی خدمات پر ڈگری دی گئی ہے، جواب ملا کہ ضیاء الحق نے یونیورسٹی کو ایک کروڑ روپے دیئے ہیں! مراد علی، فریال تالپور اور ٹیسوری نے کیا دیا ہے، کچھ معلوم نہیں۔ شائد یہ یونیورسٹی انہی لوگوں کو ڈگریاں دینے کے لئے بنائی گئی ہے!؟