برصغیر میں ماضی قریب کی دینی جدوجہد پر ایک نظر

 نو آبادیاتی دور میں عیسائی ممالک نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضے جمائے اور مسلمان ممالک میں سے کوئی فرانس کے تسلط میں چلا گیا، کوئی برطانیہ، کوئی ہالینڈ، کوئی نو آبادیاتی دور میں عیسائی ممالک نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضے جمائے اور مسلمان ممالک میں سے کوئی فرانس کے تسلط میں چلا گیا، کوئی برطانیہ، کوئی ہالینڈ، کوئی پرتگال اور کوئی اٹلی کے قبضے میں چلا گیا۔ مجموعی طور پر تقریباً ایک صدی ایسی گزری ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت غیر مسلم مسیحی قوتوں کے تسلط میں تھی۔ اس کو استعماری اور نو آبادیاتی دور کہتے ہیں جس میں اٹلی، فرانس، ہالینڈ، اسپین اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ مصر وغیرہ کے علاقے پر فرانس کا زور زیادہ تھا، ہمارے مشرقی ایشیا میں ہندوستان پر برطانیہ کا زور تھا، مشرق بعید انڈونیشیا وغیرہ ہالینڈ کے، اور لیبیا وغیرہ اٹلی کے قبضے میں تھے۔ یہ ہمارا ایک نو آبادیاتی  اور استعمار کا دور گزرا ہے جس میں کسی ملک نے دو سو سال، کسی نے ڈیڑھ سو سال، اور ہم نے تقریباً ایک سو نوے سال غلامی کا دور گزارا ہے۔متحدہ ہندوستان جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما شامل تھے، جو جنوبی ایشیا کہلاتا ہے، یہاں برطانیہ نے بالواسطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ایک سو سال حکومت کی ہے اور پھر نوے سال براہ راست برطانیہ کی حکومت رہی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں ہمیں آخری فیصلہ کن شکست ہوئی تھی، اس سے پہلے بنگال، میسور، پشاور وغیرہ مختلف علاقوں میں مزاحمت چلتی رہی۔ پنجاب  میں ساہیوال وغیرہ کے علاقے میں، اور سندھ میں راشدی سلسلہ نے بھی مزاحمت مسلح کی ۔  ۱۸۵۷ء میں ہم مکمل طور پر پسپا ہو گئے، برطانیہ نے پوری طرح تسلط جما لیا اور ہم زیرو پوائنٹ پر چلے گئے تھے۔
اس کے بعد یہاں کے ہندوؤں کے ساتھ ہمارے معاملات کیسے رہے اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بر صغیر جنوبی ایشیا میں ہندوؤں کے ساتھ ہمارا پہلا دور تو وہ تھا جب یہاں محمد بن قاسمؒ آئے اور راجہ داہر سے جنگ ہوئی، محمود غزنویؒ آئے تو سومنات تک ہندوؤں سے لڑائی ہوئی۔ پھر شیر شاہ سوری اور مغلوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی لیکن وہ دونوں ہندوؤں سے بھی لڑتے رہے،  اور باوجود ہندو غالب اکثریت کے ایک ہزار سال تک مسلمان ہی حکومت کرتے رہے ہیں۔ ہم نے طاقت کے زور پر قبضے کیے اور طاقت کے زور پر قبضے قائم رکھے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں کہ کسی سوسائٹی اور ماحول پر قبضہ کر لینا آسان ہوتا ہے لیکن قبضہ قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اصولی سی بات ہے کہ قابض قوت کے پاس طاقت کے علاوہ اخلاقی قوت اور عقیدہ و  نظریہ بھی ہوگا تو تسلط قائم رہے گا ورنہ قبضہ بس طاقت تک ہی رہے گا۔ اگر پیچھے کوئی فلسفہ، کوئی عقیدہ، کوئی روحانیت، وجدانیات اور کوئی اخلاقیات ہوں گی تو وہ قبضہ آگے چلے گا۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں نے اگرچہ یہاں طاقت کے بل پر قبضہ کیا تھا، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، ظہیر الدین بابر، ہمایوں اور شیر شاہ سوری رحمہم اللہ ہماری قوت کی علامتیں ہیں، لیکن ہمارے قبضے کا تسلسل اس لیے رہا کہ ہمارے پاس عقیدہ، اخلاقیات اور روحانیات کی قوت بھی تھی جس نے ہمیں ایک ہزار سال تک قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دی۔
 یہ بات سمجھانے کے لیے اس کی ایک اور مثال دینا چاہوں گا کہ صرف طاقت بس قبضہ کرواتی ہے، اگر طاقت کے ساتھ کوئی عقیدہ، فلسفہ اور نظریہ حیات نہ ہو تو وہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہتا۔ تاتاریوں نے بغداد پر قبضہ کر کے ہم پر تسلط قائم کر لیا تھا اور ہر طرف تباہی پھیر دی تھی، اتنی تباہی شاید کبھی نہ ہوئی ہو جتنی ان کے ہاتھوں ہماری ہوئی ہے۔ انہوں نے شام، مصر اور عراق سب علاقے روند ڈالے تھے، لیکن چونکہ کوئی اخلاقی قدریں، کوئی عقیدے کی قوت ان کے پیچھے نہیں تھی، اس لیے طاقت کے بل پر ہم پر فتح پانے کے باوجود تاتاری عقیدے اور اخلاقی قدروں کے محاذ پر پسپا اور سرنڈر ہوئے بلکہ خود اسلام قبول کر کے پھر انہوں نے خلافت سنبھالی۔ اصل قوت عقیدے اور نظریے کی قوت ہوتی ہے، اصل قوت فلسفہ اور اخلاقی قدریں ہوتی ہیں۔ یہ قوت ہو تو قبضے برقرار رہتے ہیں، ورنہ نہیں۔ تاتاریوں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ تاتاری اتنے زور سے اٹھے کہ شاید ان کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھہر سکتی، انہوں نے ہمیں شکست دی لیکن پھر ہم سے شکست کھائی اور اس کے بعد اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے، کیونکہ ان کے پاس کوئی عقیدہ اور فلسفہ نہیں تھا، جب تک قوت تھی تو ٹھیک رہے، جب قوت ختم ہوئی تو خود سرنڈر ہونا پڑا۔
برصغیر میں ہمارے ساتھ قبضے کی قوت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایمانیات کی قوت بھی تھی اور اخلاقی قدریں بھی تھیں۔ اس بات کو بغور سمجھیں کہ ہمارے ہاں ہندوستان میں قبضہ تو ان جرنیلوں نے کیا لیکن اسلام کے فروغ میں ان سے کہیں زیادہ کردار صوفیاء کرامؒ حضرت سید علی ہجویریؒ اور خواجہ معین الدین چشتیؒ وغیرہم کا ہے۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ ایک بزرگ آ کر بیٹھ گئے اور ان کی اخلاقیات، ایمانی قوت، دیانت و اخلاص، اور ان کی برکات سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے۔ قبضہ محمود غزنویؒ نے کیا لیکن کلمہ معین الدین چشتیؒ نے پڑھایا۔ یہ ایک حقیقت ہے، ہمیں یہ فرق کرنا ہوگا۔ ان جیسے بزرگ آ کر بیٹھ گئے اور اللہ کا نام لینا شروع کر دیا، لوگوں نے ان کی برکات محسوس کیں، ان کی دیانت اور خلوص کو دیکھا اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے۔
متحدہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ صوفیاء کرام بنے،  لیکن انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ میں اسلام کی دعوت کا ذریعہ تاجر بنے۔ انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ جسے مشرقِ بعید کہتے ہیں، بمبئی سے آگے پوری پٹی جس میں فلپائن، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ ہیں، آپ کو اس وقت شاید دنیا کے مجموعی مسلمانوں کا ایک چوتھائی حصہ فار ایسٹ میں ملے، وہاں کروڑوں مسلمان ہیں، آٹھ نو کروڑ مسلمان تو صرف چین میں ہی ہیں ایک جگہ پر۔ یہ تلوار سے مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مسلمان تاجروں کے طرز عمل، اخلاقیات اور دیانت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان والوں کو صوفیاء نے کلمہ پڑھایا اور فار ایسٹ کی پوری پٹی پر کلمہ پڑھانے کا ذریعہ عرب مسلمان تاجر بنے۔دعوت کی اصل قوت ایمان و اعمالِ صالحہ، سلوک و احسان، اخلاق اور دیانت ہے۔ میں دعوت کا کام کرنے والے حضرات خواہ علماء ہوں یا کوئی اور، ان سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ان صوفیاء کرام اور ان تاجر گروپوں کا مطالعہ کریں جو دنیا کے اس خطے میں تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنے۔ اور جتنے لوگ بھی مسلمان ہوئے ان کی اکثریت وہ ہے جو کسی اللہ والے سے متاثر ہوئی۔ تاتاری بھی کسی صوفی سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے کہ ایک اللہ والا وہاں چلا گیا، اس نے جا کر ایسا گھیرا کہ لوگ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ اللہ والے بڑے عجیب طریقے سے گھیرتے ہیں۔ ان کا گھیرنے کا طریقہ ڈنڈا نہیں ہوتا بلکہ وہ پیار محبت سے قابو کر لیتے ہیں۔ تاتاری بھی صوفیاء کرام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور ہندوستان کی اکثریت بھی صوفیاء کے ہاتھ پر مسلمان ہوئی۔ کوئی اللہ والا بزرگ کہیں جا کر بیٹھ جائے تو اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
[7:43 pm, 15/01/2024] UZAIR AHMED KHAN: aap jesy hi office aian tou apna kuch kam start kr l pl lazmi share kr vdia krain…mujhe b bhol jata h
[7:44 pm, 15/01/2024] UZAIR AHMED KHAN: koi doosra send krain….ye jari h…complete wala send krain
[7:46 pm, 15/01/2024] ABN Hafsa….Ausaf Site: شاطرانہ سیاست ، عدالتی کٹہرہ اور عوام

   صد افسوس ! جو صلاحیتیں  قومی تعمیر و ترقی کے لئے صرف ہونا تھیں وہ سیاسی جوڑ توڑ میں ضائع کی جارہی ہیں۔ کیا خوب ترجیحات ہیں۔ سیاسی مباحث میں   صد افسوس ! جو صلاحیتیں  قومی تعمیر و ترقی کے لئے صرف ہونا تھیں وہ سیاسی جوڑ توڑ میں ضائع کی جارہی ہیں۔ کیا خوب ترجیحات ہیں۔ سیاسی مباحث میں  دہائیوں سے جماعتوں کی قیادت پہ مسلط لیڈروں کی خوبیوں اور خامیوں کو چھانٹنے اور چھاننے  کا عمل جاری ہے۔ میرا لیڈر دیانتدار تیرا لیڈر چور ۔ ہمارا لشکر مظلوم تمہارا لشکر  ظالم۔ ہم محب وطن تم غدار ۔ دنیا میں انتخابی مہم  کے دوران جماعتی منشور پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں قدیم  جنگی ہتھیار تیر ، کرکٹ کھیلنے والے بیٹ اور جنگلی درندے شیر  جیسے انتخابی نشان کو کھلونوں کی طرح لہرا کر عوام کو بہلایا پھسلایا جا رہا ہے۔ معاملہ  بے تکی  بیان بازی  اور لچھے دار تقاریرسے بڑھ کر عدالت عظمیٰ تک جاپہنچا ہے۔ عوام کن مسائل کی چکی میں پس رہی ہے؟ ناقابل برداشت مہنگائی ،  سرحد پاردہشت گردی کا عفریت، عدم استحکام ، معاشی زوال ، روپے کی بے قدری ،  سیاسی بے یقینی کے گہرے ہوتے بادل ، ازلی دشمن بھارت کی چیرہ دستیاں اور قومی اداروں کی غیر اطمینان بخش کارکردگی۔ انقلاب کی داعی  اور اقتدار کی امیدوار  تین بڑی جماعتیں کس کارخیر میں مصروف ہیں؟ 
 بھلا ہو چیف جسٹس کا کہ عدالتی کارروائی  براہ راست  نشر کروا کر عوام کو موقع فراہم کیا کہ اپنے محبوب قائدین اور ان کے منہ پھٹ ترجمانوں کی لیاقت ، چرب زبانی ، فراست اور سب سے بڑھ کر اصل ترجیحات کو پرکھ سکیں ۔ تیر انداز لشکر سندھ اور بلوچستان سے واویلا مچاتا ہوا اب پنجاب آن پہنچا ہے۔ خاندانی قربانیوں کا تاج سر پہ سجائے اور  آنکھوں میں وزارت عظمیٰ کا خواب بسائے  پارٹی چیئرمین اس حکومت کی کارکردگی پہ تنقید فرما رہے ہیں جس کی کابینہ میں لگ بھگ اٹھارہ ماہ موصوف مملکت خداداد کے وزیر خارجہ رہے۔ تحریک عدم اعتماد کی بدولت بلے بازوں کے اقتدار کا  چھینکا ٹوٹا تو دودھ پینے کے پر لطف عمل میں تیر انداز اپنے شیر سوار جزوقتی اتحادیوں کے شانہ بشانہ شریک رہے۔ اگر پی ڈی ایم حکومت مجرم  مان لی جائے  تو پی پی پی کا شریک جرم ہونا خود بخود ثابت ہوجاتا ہے۔ شیر کی پیٹھ پہ سوار ہو کر بلا توڑنے کے بعد مسند اقتدار پہ براجمان ہونے والے لشکر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کامیابی کا دعویٰ بھی ہے  اور سیاسی سودے میں خسارے کا اعتراف بھی۔ اسلام آباد سے جیل  اور جیل سے لاہور براستہ  لندن  سفر کرنے والے مریض تو واپس آچکے ہیں البتہ سیاسی صحت کی بحالی کا تاحال کوئی ثبوت دستیاب نہیں ۔  بلے باز لشکر کا معاملہ  بیک وقت پیچیدہ ، سنگین اور مضحکہ خیز ہے۔ اتحادی حکومت بنا تو لی لیکن سنبھالی نہ گئی ۔ نیا پاکستان بغیر منصوبہ بندی کے بنانے کے چکر میں پرانا پاکستان بھی اجاڑ دیا ۔ تقریروں سے جلسے سجائے اور سادہ لوح ورکرز کے قلب  گرما ئے لیکن عوام کے چولہے ٹھنڈے کر دئیے۔  کے پی میں دس سال جبکہ پنجاب اور مرکز میں بیالیس ماہ پہ محیط اقتدار کا حاصل وصول ناکامی و نامرادی کی صورت سامنے آچکا۔ مقبولیت کا سورج نصف النہار پہ پہنچنے کی نوید دینے والے یہ نہیں سمجھا پاتے کہ آج ملک زوال کی ڈھلوان پہ کیوں لڑھکتا جارہا ہے؟ پانچ سالہ سیاسی  اودھم دھاڑ  کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پہ من گھڑت ٹرینڈ تو چل سکتے ہیں لیکن ملک نہیں چلایا جا سکتا ۔ میر نے خوب کہا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے 
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
 ملک چلانے کے لئے نیت درکار ہے ۔ نیت ہی کافی نہیں صلاحیت ، تیاری ، میرٹ ، تدبر ، تحمل اور مخلص افراد درکار ہیں۔ یہ کار دشوار  چاپلوس ، خوش آمدی ، اندھے مقلدین اور منہ پھٹ سوشل میڈیائی افلاطونوں کے بس کا نہیں ۔ سب سے زیادہ مقبول ہونے کے دعویدار گروہ نے بلے کے انتخابی نشان کے لئے  جو کارکردگی عدالتی کٹہرے میں دکھائی ہے وہ بھی ایک چشم کشا شاہکار ہے۔ براہ راست نشر ہونے والی عدالتی کارروائی نے انصافی لشکر کے نظم ،ضبط اور حسن کارکردگی کا حشر نشر کر ڈالا ہے۔ وکلاء ٹھوس ثبوت کے بجائے سوشل میڈیائی حوالے پیش کر رہے ہیں۔ بانی اراکین کی حیثیت اور فعالیت پہ سوال اٹھ رہے ہیں ۔ جماعت  جمہوری اقدار نہیں بلکہ  شخصی آمریت کے تحت فعال ہے۔ انصافی لشکر کی  فعالیت کو  سات فرشی سلام کہ  جو خود اپنے جماعتی انتخابات بھونڈے انداز میں کروانے کے بعد اب عدالتی کٹہروں میں انتخابی نشان بلے کے لئے سرگرداں ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ جو گروہ جماعتی آئین پہ عمل نہ کرسکے وہ ملکی آئین پہ کیسے عمل کر ے گا؟ جن سے اپنی جماعت نہیں سنبھالی جارہی ان سے ملک کیسے سنبھالا جائے گا؟ یہ اعتراض بجا ہیں ۔ لیکن اعتراض داغنے والے مخالف گروہ یعنی پی پی پی اور نون لیگ کے دامن بھی داغدار ہیں ۔ یہی تمام عیوب کم وبیش سب سیاسی جماعتوں میں بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ انصافی لشکر کی ناکامی کو کسی اور جماعت کی اہلیت کی سند نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ گروہی  مفادات کے گرد گھومتی  سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہو پائے گا۔  
سیاسی شعبدہ بازوں  کے جھانسے میں آنے کے بجائے ان سے یہ سوال ضرور کریں کہ کیا محض تقریروں سے ملکی مسائل درست ہو سکتے ہیں ؟ کیا عوامی مقبولیت کسی گروہ یا لیڈر کو قانون سے استثنیٰ دینے کے لئے کافی ہے؟ عدالتوں میں جاری سیاسی دنگل سے عوام کو کیا ملتا ہے؟ کتنے  ترقی یافتہ ممالک میں لیڈر تادم مرگ جماعت کی سربراہی سے چپکے رہتے ہیں؟  عوام پہ لازم ہے کہ ووٹ کے طلبگار گروہ سے منشور ، سابقہ کارگزاری ، استعداد کار اور قیادت کے کردار کے متعلق چھان پھٹک ضرور کریں ۔