مولانا غلام رسول مہر،مجاہدین بالاکوٹ کی تاریخ لکھنے والے، پہلے زمیندار میں بطور ایڈیٹر کام کیا، بعد ازاں اپنا روزنامہ انقلاب لاہورسےنکالا۔ وہ حجاز، سعودی عرب، نجد، شاہ عبد العزیز آل سعود کے حوالے سےایک ’’سفرنامہ حجاز‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے خود جاکر مکہ مکرمہ میں شاہ عبدالعزیز کو کیسا پایا، یہ سب کچھ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی مرتبہ کتاب میں صفحہ70 سے 82 تک موجود ہے۔ اس کتاب کو عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کیا تھا۔ سفرنامہ حجازانٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ آئیے ہم شاہ عبدالعزیز سےملاقات کےلئےمولانا غلام رسول مہر کی رفاقت میں چلتےہیں۔ سوا چارسال کےبعد اب پہلی مرتبہ حضرت سلطان (عبد العزیز بن سعودؒ) کو قریب سے دیکھا۔ وہی سادہ لباس، وہی سادہ عباء، پائوں میں وہی نجد کی چپلی۔ چند منٹ کے بعد سلطان المعظم نے تقریر شروع کی ۔ یعنی اےلوگو! ہم نےدنیامیں تمہاری خلقت کاوسیلہ مرداور عورت کا اتحاد رکھا اور نسلوں قبیلوں میں تقسیم کر دیااس لئے کہ باہم پہچانیں (ورنہ اصل میں یہ تفریق و انتساب کوئی ذریعہ امتیاز نہیں) اور امتیازوشرف اسی کےلئےہےجو اللہ کےنزدیک سب سے زیادہ متقی ہے۔ (الحجرات13 )
تلاوت فرمان کےبعد کلمہ توحید کی تشریح فرمانے لگے۔ توحید اہل نجد کاخاص مضمون ہے۔ پھرسلطان کا زورکلام،خطابت کی بے پناہ سحرکاریاں، اسلام کا جوش، دین کی محبت، پانچ منٹ کےاندر اندرپانچ سو کا متفرق الاقوام مجمع ہمہ تن اس سحر حلال کی موجوں میں غرق ہوچکا تھا۔ سلطان نے اہل نجد کے عقائد بیان فرمائے، کہاکہ ہم قرآن و حدیث، ارشادات صحابہ کرامؓ اور اجتہادات ائمہ اربعہ تک ہر چیز کو علی الترتیب مانتے ہیں۔ ان میں سے جو چیزہمارےسامنے آئے،سر آنکھوں پر،لیکن ان کے بعد کچھ نہیں مانتے۔ آخر میں اتحاد المسلمین پر بڑا زوردیا،بار بارفرماتےتھے کہ مسلمان متحدہوئےبغیرباقی نہیں رہ سکتے۔ یہ بھی فرمایا کہ لوگ مجھے یورپ سےڈراتے ہیں،میں دنیاکی ہرچیزسے بےپرواہوں۔ خدا اور رسول ﷺ کے سواکسی شے کےسامنے میری گردن نہیں جھک سکتی۔ جہاں حضورﷺ کا نام مبارک آتا ،سلطان اللھم صل وسلم علیہ پڑھتے۔ یہ پرتاثیرتقریرتقریباًایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ایسامعلوم ہوتاتھا کہ کوئی نہایت زبردست عالم دین توحید کےحقائق عالیہ کو نہایت پرتاثیرانداز میں پیش کررہا ہے۔ آخر میں سلطان نے ازراہ عجز و انکسارفرمایا کہ میں پڑھا لکھاآدمی نہیں ہوں، محض بدو ہوں۔ شائد قرآن کی چند آیتیں بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا لیکن اللہ نے مجھےتوحیدکی حفاظت کا منصب عطا کیا ہے۔ میری اولاد، میرا گھر بار،میری قوم اورمیرا ملک سب اس راہ میں قربان ہو جائیں، میں بلاتامل قربان کر ڈالوں گا لیکن اپنا منصب ضرور پورا کروں گا۔ تقریر پوری ہوچکی تو ہرطرف سےسپاس و دعا کی صدائیں بلند ہوئیں۔ آخر میں جامعہ زین العابدین کے خطیب نے تقریر کی، بےحدتعریف کی اورکہا کہ مجھے حضرت سلطان کی تقریرسننے کایہ دوسرا موقع ملا ہے میں حیران ہوں کہ ایک والی ملک کس طرح ایسی لبریز حقائق تقریریں کرسکتا ہے میں جلالتہ الملک کو ’’مرشد الحکیم‘‘ کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ سلطان المعظم نے ہمارے مکہ پہنچنے سے ایک روز قبل بلدیہ کی دعوت میں ایک نہایت دلکش تقریر فرمائی تھی۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ بلدیہ مکہ نےسلطان کے مکہ معظمہ پہنچنے سےدوسرے روزسلطان کے اعزاز میں ایک عالی شان دعوت کاانتظام کیاتھاجس میں متعدد اکابرشریک تھے۔ یہ دعوت دارالموتمر واقع جیاد میں ہوئی تھی جو اب حکومت کا دفترمال ہے۔ سلطان حج سےفارغ ہوتے ہی بعض قبائل نجد کی بغاوت کے باعث نجدشریف لےگئےتھے اورحضرت کوسال بھرحجاز آنےکی فرصت نہیں ملی تھی۔ ان کی غیرحاضری میں بعض کوتاہ اندیش اصحاب کی تحریک پرحجاز میں سلطان کا یوم جلوس منایا گیاجس میں من جملہ دوسری باتوں کے عربیت کےاحیا پرخاص زوردیا گیا اور مصری و شامی اخبارنویسوں کوخاص طورپربلایاگیا۔ سناگیاہے کہ اس جشن میں ’’زندہ بادملت عرب‘‘ کے نعرےخاص طورپرلگائےگئے تھے۔ سلطان کونجد میں یہ تمام کوائف معلوم ہوئے تو انہیں بڑا غصہ آیا کہ میں اسلام کے لئے جان ہتھیلی پر لیے پھرتاہوں اور چاہتا ہوں کہ اسلام کےسوا ہرامتیازمٹ جائےلیکن میرے کارکن ’’زندہ بادملت عرب‘‘ کے پیچھے پڑگئے ہیں اور میری تحریک کو اسلامیت کےصراط مستقیم سےہٹا کریورپی،افریقی و قومیت کے غلط راستے پر ڈال رہے ہیں چنانچہ سلطان نے مکہ معظمہ پہنچنے کے بعدسب سےپہلی پبلک تقریرمیں افرنجی قومیت کےاس بت کو ریزہ ریز ہ کرناضروری سمجھاجسے سلطان کی غیر حاضری میں بعض کوتاہ اندیشوں نے حرمین میں کھڑاکرنےکی کوشش کی تھی۔ بیان کیاجاتا ہے کہ سلطان نے غیظ آمیزانداز میں تحریک جدیدہ عربیت کی خرابیاں واضح کیں، فرمایا۔ تم کہتے ہو کہ ہم عرب ہیں لیکن عربوں نےکیاکیا؟ تم وہ نہیں ہوجن کے آباء واجدادنےاس کائنات کی محبوب ترین ہستی کو اذیت دی تھی اور اس وطن سے نکل جانے پرمجبورکردیا تھا؟ ﷺ۔ کیا انہی عربوں نے بیت المقدس کو بتوں سے نہیں بھراتھا؟ دین قیم کی مخالفت نہیں کی تھی؟ کیاابوجہل اورابولہب عرب نہ تھے؟ تم جس شےپرنازاں ہو، جس چیزپرفخرکررہےہو،کیاوہ اسلام سےقبل دنیا کی ملعون ترین چیزنہ تھی؟ لہٰذا شرف ’’عربیت‘‘ سے نہیں، اسلام سے ہے، تم اس لئےمعززبنےکہ تم نے اسلام کاجھنڈا بلند کیا،پھراب تمہاری زبانوں پر ’’زندہ باد عرب ملت‘‘ کیوں ہے؟کیوں ’’زندہ باد اسلام‘‘ نہیں پکارتے! عربوں کو اسلام کےسوا کوئی رعایت حاصل نہیں ہےاور یہ شرف ایسا ہےجس میں کائنات انسانیت کاہر فرزند توحید، ہرکلمہ گوئے حق ان کاہم پایہ ہے،خواہ افغانستان کارہنے والا ہو یا ایران کا، مصر کارہنے والاہو یا ہندوستان کا! تمہاری زبان پرصرف ایک کلمہ ہوناچاہیےیعنی ’’زندہ باد اسلام‘‘ اسلام تمہارا مبدا ہے، اسلام تمہارا معاد ہے۔ اس سے تمہیں شرف ہے، اس سے تمہیں برتری ہے۔ عربیت ہیچ ہے، اسلام کے بغیر سب کچھ ہیچ ہے! بیان کیاجاتاہے کہ اس تقریر نے سب کی آنکھیں کھول دیں اور سب اپنی جاری کردہ تحریک پر نادم تھے