دینی مدارس کے نصاب ونظام میں اصلاح

(گزشتہ سے پیوستہ) اسی طرح یونانی فلسفہ و منطق اپنے دور کا رائج الوقت فلسفہ تھا اور دنیا بھر میں گفتگو اور مباحثہ و مکالمہ کے دائرہ میں اسی کے اسلوب کی حکمرانی تھی، چنانچہ جب عباسی دور میں یونانی فلسفہ کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور اس فلسفہ کی بنیاد پر معتزلہ نے اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پھیلانا شروع کیے تو دفاعی ضرورت کے لیے اس فلسفہ کا سیکھنا ضروری قرار پایا، ورنہ ابتدا میں اس فلسفہ کی زبان میں عقائد کی بات کرنے کو اس دور کے اکابر اہلِ علم و فضل نے ناپسند کیا تھا اور اسے بدعت قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ لیکن جب دنیا میں اس فلسفہ و منطق کا چلن عام ہوا اور معتزلہ وغیرہ نے اس سے غلط فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو خراب کرنا شروع کر دیا تو علماء اور فقہاء نے اس فلسفہ کی تعلیم کی ضرورت محسوس کی اور امام ابوالحسن اشعریؒ، امام ابو منصور ماتریدیؒ، امام غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ جیسے عظیم متکلمین نے اس فلسفہ پر عبور بلکہ گرفت حاصل کر کے اسلام کے نظامِ عقائد کو معتزلہ وغیرہ کی یلغار سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے یہ بزرگ عقائد کے باب میں ہمارے ائمہ اور مقتدا شمار کیے جاتے ہیں۔
درسِ نظامی میں یونانی فلسفہ و منطق کی شمولیت اسی ضرورت کے تحت لازمی سمجھی گئی تھی اور اس پسِ منظر میں یہ ایک حد تک آج بھی ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج کی عالمی زبان اور بحث و مباحثہ کے اسلوب میں یونانی فلسفہ کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا کیونکہ مغرب کے سیاسی، سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی زبان، اسلوب اور منطق یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ اور اب دنیا میں کہیں بھی یونانی فلسفہ میں بات کرنے کا اسلوب موجود نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ہیومینیٹی یعنی ’’انسانی حقوق‘‘ کے فلسفہ نے لے لی ہے اور اب دنیا میں ہر جگہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل و معاملات پر گفتگو اسی نئے فلسفہ و اسلوب میں ہو رہی ہے۔ اس لیے اپنی ضرورت کی حد تک یونانی فلسفہ و منطق کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نئے فلسفہ و منطق کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا اسی طرح ضروری ہوگیا ہے جیسے یونانی فلسفہ و منطق کو ایک زمانہ میں عصری تقاضہ سمجھ کر نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا۔ کمپیوٹر سائنسز کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، باقی سارے شعبوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو بھی آج کے زمینی حقائق اس حوالہ سے ہمارے سامنے ہیں کہ کتابیں کمپیوٹر پر منتقل ہو رہی ہیں اور جدید دور میں لائبریری کا تصور کتاب اور الماریوں کی صورت میں نہیں بلکہ کمپیوٹرائزڈ اسٹوریج کی شکل میں ہے جن سے موبائل ڈیوائسز پر انٹرنیٹ کے ذریعے سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اپنے طالب علم کو کمپیوٹر سائنس سے دور رکھنے کا مطلب اسے کتاب، علم اور لٹریچر کی ایک وسیع دنیا سے الگ رکھنا ہے جو کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے۔ اس لیے گزشتہ تین عشروں سے میری طالب علمانہ رائے مسلسل یہی چلی آرہی ہے کہ جہاں تک قرآن و سنت اور حدیث و فقہ کے علوم کا تعلق ہے اس میں تو ردوبدل کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے البتہ جدید تحقیقات اور عرف و تعامل کے حوالہ سے تغیر پذیر مسائل و احکام کو نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ سموتے رہنا ہر دور کی ضرورت رہا ہے جو اب بھی ہے۔ عربی زبان اور اپنے ملک کی قومی زبان یعنی اردو کی تعلیم دینی مدرسہ کے طلبہ کے لیے اس درجہ میں لازمی ہے کہ وہ فی البدیہہ گفتگو کر سکیں، مقالہ نویسی کی صلاحیت رکھتے ہوں، علمی و عوامی مباحثوں میں پورے اعتماد کے ساتھ شریک ہو سکیں اور فصاحت کے معروف معیار پر پورے اترتے ہوں۔ دفتری اور عدالتی زبان ہونے کی وجہ سے انگریزی کی تعلیم بھی اس وقت تک ضروری ہے جب تک اس کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو جاتی اور اس کی جگہ عملی طور پر اردو رائج نہیں ہو جاتی۔ عالمی سطح پر دین کی دعوت، اسلامی عقائد و احکام و قوانین کی تشریح اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے رد و جواب کے لیے انگریزی زبان کی ضرورت اپنی جگہ الگ طور پر موجود ہے۔ ابلاغ کا مؤثر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی سرمائے کی کمپیوٹر پر مسلسل منتقلی کے باعث کمپیوٹر کی تعلیم بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آج کے اس عالمی فلسفہ اور اسلوب سے واقفیت بلکہ اس کے دائرے میں گفتگو اور مباحثہ کی صلاحیت بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کی اہم ترین ضرورت ہے جس فلسفہ و اسلوب میں اسلام کے عقائد و احکام اور شریعت اسلامیہ کے مختلف قوانین پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت اور اس کا دفاع اب ممکن نہیں رہا۔