اس سال الیکشن نہیں ہو سکتے، چیف الیکشن کمشنر

٭ …اس سال الیکشن نہیں ہو سکتے، چیف جسٹس کو چیف الیکشن کمشنر کی وضاحتO جڑانوالہ فسادات، شر انگیزی کے مرکزی ملزم گرفتار، 637 کے خلاف مقدمات، 125 گرفتار، دو روزہ جسمانی ریمانڈ، نگران وزیراعلیٰ کی زیر صدارت بین المذاہب علماء کمیٹی کا اجلاس، فسادات میں بھارت کی سازش نمایاں! O شرپسندوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی، محسن نقوی، ملک بھر کے مذہبی، سیاسی و عوام کا شدید اظہار مذمت!O اسلام آباد:18 رکنی وفاقی کابینہ کی حلف برداری، جلیل عباس جیلانی خارجہ، شمشاد اختر خزانہ، سرفراز بُگٹی وزیرداخلہ، مرتضیٰ سولنگی وزیراطلاعات، 5 خصوصی مشیر!O عمران خان، سپریم کورٹ میں رہائی کی درخواست، 180 مقدمات قائم ہیںO ’’انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں‘‘ ن لیگ کے خرم دستگیر، پیپلزپارٹی کے فیصل کنڈی کا مطالبہO ہاکی ٹیم کی بدترین شکستیں، ہاکی فیڈریشن کے تمام عہدیدار معطلO بھارت، منی پور، پھر فسادات شروعO بھارت: انتہائی مہنگائی، ٹماٹر، پیاز کی فصلیں مکمل تباہ، پھر بارشیں شروعO رضوانہ تشدد کیس، تشدد میں شامل سول جج عاصم حفیظ معطل، بیوی جیل میںO الحمرا آرٹ سینٹر لاہور، فحش رقصوں پر تمام کمرشل ڈرامےمکمل بندOنگران وزیراعظم کا چودھری شجاعت حسین کو نیازمندی کا فون! محمد سائرس سجاد نےسیکرٹری خارجہ کا عہدہ سنبھال لیاO ’’مجھے مالکن ہینگروں سے مارتی تھی، گرم چمچے سے چہرےکو داغتی تھی، اس کے بچے بھی مارتے تھے، مجھ پر دوبار کتے بھی چھوڑے گئے، اسلام آباد میں کم سن ملازمہ عندلیب فاطمہ کا بیان۔
٭تین اہم خبریں اکٹھی ہو گئیں 18 رکنی نگران کابینہ نے حلف اٹھا لیا، انتخابات فروری 2024ء سے پہلے ممکن نہیں، الیکشن کمیشن کےچیئرمین کا دو گھنٹے کی میٹنگ میں چیف جسٹس کو وضاحت! اسی ترتیب سے تجزیے پڑھئےO نگران وزیراعظم کی نگران15 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا، 19 وزیر 6 خصوصی معاونین شامل ہیں، وزیراعظم نے سات وزارتیں اپنے پاس رکھی ہیں۔ تمام وزراء ٹیکنوکریٹ ہیں اور اپنے شعبوں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں البتہ خصوصی معاونین! محض دل جوئی کی گئی ہے! یہ ساری کابینہ صرف سات ماہ کام کرے گی۔ فروری یا مارچ 2024ء میں فارغ ہو جائے گی۔ آئین کے مطابق نگران کابینہ 60 یا90 دنوں کے لئے ہوتی ہے مگر سابقہ شہباز حکومت نے آئین، قانون اور قوانین کی جس انداز بلکہ کھلی سازش سے پامالی کی اس کی بنا پر انتخابات 9 اپریل 2023ء کی بجائے فروری مارچ 2024ء پر جا پڑے ہیں! اس سے نگران حکومتیں کم از کم سات ماہ تک چلتی رہیں گی۔ پی ڈی ایم کی حکومت نےکھلی بدنیتی کے ساتھ عام نئی مردم شماری کو ایک سال تک روکے رکھا۔ اس کے باعث الیکشن کمیشن کا جولائی 2023ء تک انتخابات کا سارا پروگرام تلپٹ ہو گیا۔ متحدہ حکومت کا واضح مسئلہ تھا کہ ہر شعبے میں ناقابل برداشت کمر توڑ مہنگائی کے باعث وہ عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتی تھی مگر انتخابات کو ٹالنے رہنے کا الٹا اثر ہوا کہ اقتدار چھوڑنے والے دِن جاتے جاتے پٹرول میں 17.5 روپے اور ڈیزل میں 20 روپے لِٹر کا 20 فیصد اضافہ کر گئے۔ بہانہ بنایا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جب کہ اخبارات خبریں دے رہے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ نے خام تیل کی قیمتیں خاصی کم کر دی ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ترجمان 90 دنوں میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی 60 دنوں میں ہونے چاہئیں تھے، مگر چالاکی سے اسمبلیوں کی مقررہ مدت 13 اگست کو ختم ہونے سے دو دن پہلے انہیں توڑ دیا گیا! کیوں توڑا؟ کوئی دلیل نہیں! صرف مزید ایک ماہ کے لئے عوام کے غیظ و غضب سے بچنے کی کوشش! آئین، قوانین، ضابطے کیا ہوتے ہیں، یہ پی ڈی ایم کا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ پیپلزپارٹی کے اصل چیئرمین آصف زرداری بار بار رٹ لگاتے رہے کہ آئندہ وزیراعظم بلاول زرداری ہو گا، خود بلاول نے بھی اعلان شروع کر دیا مگر شہبازشریف نےنوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کانعرہ لگا دیا۔ ایک اور نعرہ نئی ’ڈھائی ٹوٹرو‘ استحکام پارٹی نے لگا دیا کہ جہانگیر ترین وزیراعظم ہوں گے۔ یہ پارٹی ابھی اسلام آباد تک محدود ہے اور اس کی سیکرٹری اطلاعات فردوس عاشق اعوان اعلان کر رہی ہے کہ استحکام پارٹی ملک بھر کی تمام قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے کرے گی!! اس خاتون کی باتوں پر کیا تبصرہ کرنا، البتہ ہنسی آ جاتی ہے۔ قارئین کرام ’’ڈھائی ٹوٹرو‘‘ پنجابی زبان کا محاورہ ہے۔ ٹوٹرو ایک بہت چھوٹا سا پرندہ ہے اسے ٹَیٹَری یا ٹَیٹَنی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ رات کے وقت کسی تالاب کے کنارے ٹانگیں اونچی کر کے الٹا سو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے آسمان کو تھام کر گرنے سے بچا لیا ہے۔ ٭دوسری اہم خبر پہلے اتنی ہی اہم رانی پور سندھ کی دل خراش خبر!اسلام آباد میں تو دو کم سن ملازمائوں پر تشدد ہوا مگر بچیاں زندہ رہ گئیں، رانی پور میں تو ایسی کم سن بچی کو قتل کردیا گیا اور پولیس کو اطلاع دیئے بغیر اسے دفن بھی کر دیا گیا پولیس نے بچی کی قبر کشائی کی درخواست دی ہے۔ ٭وفاقی نگران کابینہ کی حلف برداری اتنی معمولی دکھائی دی کہ روائت کے مطابق کوئی غیر ملکی سفیر یا سفارت کار حلف برداری میں شریک نہیں ہوا، کسی کو اطلاع ہی نہیں دی گئی۔ وزراء میں بیشتر افراد زراعت، صنعت، خارجہ امور میں ماہر ہیں۔ شیخ رشید، رانا ثناء اللہ کے بعد سرفراز بگٹی وزیرداخلہ بنے ہیں۔ خالص بلوچ سردار ہیں، ماضی میں بعض مقدمات میں ملوث رہے، پھر بری ہو گئے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق نے وزیرمملکت کے عہدہ کی سات وزارتیں اپنے پاس رکھی ہیں۔ بوقت ضرورت کسی کو نوازا جا سکتا ہے۔ کابینہ میں اہم ترین وزارت خزانہ کی ہے۔ اس کے لئے سٹیٹ بنک کی سابق گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر کو منتخب کیاگیاہے۔ شمشاد عالمی سطح پر اقتصادیات کی مسلمہ ماہر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ورلڈ بنک کے نائب صدر، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب، مختلف ممالک میں سفیر بھی رہے۔ 1937ء میں پیدا ہوئے، عمر86 سال سے زیادہ ہے۔ ان کا بنیادی کام پاکستان کی بدحال معیشت کو بحال کرنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پر عملدرآمد کرنا ہے۔ وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی سیکرٹری خارجہ اور مختلف ممالک میں سفیر رہ چکے ہیں۔ باقی تفصیل اخبارات میں!! ٭جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گرجا گھر اور گھر جلائے جانے کی ملک بھر میں حکومت، ہر شعبے کے عوام، ادیبوں، شاعروں، فن کاروں نے شدید مذمت کی ہے۔ پہلے خبر آئی کہ چار گرجا گھروں میں آگ لگائی گئی بعد میں یہ تعداد 16 اور20 تک پہنچ گئی۔ 20 سے زیادہ مسیحی باشندوں کے مکانات جلائے گئے! بہت دل خراش تفصیلات ہیں۔ یوں سمجھیں کہ درندگی اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے۔ ہمارے ادبی حلقوں میں بعض نہائت معتبر مسیحی شاعر و ادیب موجود ہیں۔ انہوں نے نہائت دل سوز مگر شائستہ اور مہذبانہ لہجے میں گلہ کیا ہے کہ ان کی برادری کے ساتھ اس وحشت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟؟ ان مسیحی اہل ادب افراد میں نذیر قیصر (پرائڈ آف پرفارمنس) کنول فیروز تمغہ امتیاز، آفتاب جاوید اور خاتون شاعرہ آسناتھ کنول یونس کے دکھ کے دردمندانہ اظہار نے آنکھیں بھگو دی ہیں۔ مجھے اپنا پرانا ایم اے کا زندہ دل مسیحی کلاس فیلو گلزار وفا چودھری یاد آ رہا ہے۔ کیا زندہ دل شخص تھا! ماڈل ٹائون لاہور میں وزیراعظم نوازشریف کو اپنے محل کے سامنے غریب مسیحی افراد کی بستی ناگوار لگتی تھی۔ حکم ہوا کہ بستی مسمار کر کے کہیں شہر کے باہر لے جائی جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ ایک روز ساری بستی مسمار کر دی گئی۔ گلزار وفا چودھری موقع پر پہنچا اور معصوم مظلوم باشندوں پر ہونے والے ’’شریفانہ‘‘ ظلم پر بلند آواز سے نوحہ پڑھ دیا۔ گلزار وفا ایف سی کالج میں لیکچرار تھا۔ اسے معطل کر کے لیّہ بھیج دیا گیا ایک سال بعد نوازشریف کی حکومت تبدیل ہو گئی۔ گلزار ایف سی کالج میں بحال ہو گیا۔ اسے ایک سال کی تنخواہ اکٹھی مل گئی۔ اس نے ایک گاڑی خرید لی اور نوازشریف کو خط لکھا کہ آپ کی مہربانی سے ایک گاڑی خرید لی ہے۔ آپ دوبارہ وزیراعظم بن جائیں تو پھر مجھے لیّہ بھیج دیں۔ میرا بیٹا بھی گاڑی مانگ رہا ہے۔