تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے

امام بخاری ؒ نے حضرت علیؓ کا یہ قول تعلیقاً نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’حدثواالناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ؟‘‘ کہ لوگوں کے سامنے حدیث ایسے بیان کرو یا وہ حدیث بیان کرو جو لوگوں کے معروفات و مسلمات کے دائرے میں ہو۔ ایسی بات مت کرو جس سے ان کے ذہن میں نفرت پیدا ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی منزل پر چلے جائیں۔ یعنی معروفات کو سامنے رکھو اور اس کے مطابق حدیث کی بات کرو۔
ایک قول امام مسلمؒ نے مقدمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا نقل کیا ہے، فرماتے ہیں ’’’گر تم لوگوں کے سامنے کسی گروہ کے سامنے ایسی حدیث بیان کرو گے یا ایسے انداز سے بیان کرو گے کہ ان کی عقلوں کی جہاں تک رسائی نہیں ہے تو تمہارا یہ بیان کرنا ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گا، آزمائش بن جائے گا۔‘‘ اس کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کا ارشاد بھی ملا لیا جائے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ’’وعائین‘‘ (دو برتن) ہیں۔ ایک برتن تو میں نے تمہارے سامنے پھیلا دیا ہے، اور اگر دوسرے کو بکھیروں تو میری یہ گردن کٹ جائے۔صحابہؓ میں حدیث کے تین بنیادی راویوں کے ان ارشادات کو سامنے رکھ کر یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ حدیث کو بیان کرنے میں اور اس کے انداز میں اس دور کے معروفات و مسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور حدیث کو لوگوں کے ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بننا چاہیے، اس میں تشکیک و شبہات کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔میں بھی حدیث کا ایک پرانا طالب علم ہوں، پڑھتے پڑھاتے نصف صدی گزر گئی ہے۔ جب ہم حدیث پڑھا رہے ہوں تو جس طرح پبلک کے ایک اجتماع میں حدیث بیان کرتے ہوئے پبلک کی ذہنی نفسیات اور ذہنی سطح اور اس کے معروفات و مسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے سامنے جو کلاس بیٹھی ہے، اس کی ذہنی سطح کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ کلاس کس لیول ہے، کون سی بات ان کے ذہن میں جائے گی اور کون سی نہیں جائے گی۔ کیونکہ آج ہمارے سامنے جو طلبہ حدیث پڑھنے بیٹھتے ہیں، ان کا لیول آج سے پچاس سال پہلے والا نہیں ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے ہوتا یہ تھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کی اکثریت مطالعہ کر کے آتی تھی۔ استاد کو بس اشارہ کرنا پڑتا تھا۔ استاد روایت سناتا اور اشارہ دیتا تھا۔ ایک دن میں بیس بیس صفحے ویسے ہی نہیں پڑھے جاتے تھے۔ ایک روایت پڑھی گئی ہے جو طلبہ کے ذہن میں پہلے سے ہے، استاد نے اشارہ کر دیا کہ یہ بات یوں ہے، بس بات آگے نکل گئی۔ اب میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اب تو ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ اگر نفس حدیث سمجھ لیں کہ حدیث کیا کہتی ہے اور اس حدیث کا ترجمۃ الباب سے تعلق کیا ہے، بس وہ اتنی بات سمجھ لیں تو ان کی ہم پر بڑی مہربانی ہے کہ وہ نفس حدیث سمجھ گئے ہیں اور اس کا مضمون سمجھ گئے ہیں کہ کس مضمون کی یہ روایت ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارا استعداد کا لیول کم ہوتے ہوتے اس مقام پر آگیا ہے، لیکن ہماری بیشتر تقریریں پچاس سال پہلے کی اسی سطح کی ہیں۔ اور یہ ایک عملی بات ہے جو میں محسوس کر رہا ہوں کیونکہ ہم نے اسٹڈی وہاں سے کی ہوئی ہے، لیکن سننے والے کا لیول اور فریکونسی اس سے نہیں ملتی۔ آج میرے نزدیک حدیث کی تدریس میں ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پہلے نفس حدیث سمجھائیں کہ حدیث کیا کہتی ہے اور مضمون کیا ہے، اس کے بعد اگر کوئی بات ضروری ہے تو ان کے فہم کے مطابق بیان کر دیں، ورنہ تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ایک بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ لوگوں کی ذہنی سطح، ان کے فہم کا دائرہ اور اس کا لیول ہمیں دیکھنا چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ حدیث کے ساتھ ان کا فہم کا تعلق زیادہ سے زیادہ قائم ہو۔ تیسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت امام طحاویؒ ہمارے احناف کے بہت بڑے وکیل ہیں اور ان کی کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ ہمارے مستدلات کا بھی اور استدلال کا بھی بہت بڑا ماخذ ہے، لیکن امام طحاوی ؒ نے شرح معانی الآثار لکھی کیوں تھی۔ انہوں نے اس کو لکھنے کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے۔ مضمون اس کتاب کا یہی ہے کہ ترتیب سے احناف اور دوسرے فقہاء کا موقف اور اختلافی مسائل میں دلائل بیان کرتے ہیں، پھر استدلال و ترجیح ثابت کرتے ہیں۔ لیکن امام طحاوی ؒ اپنی کتاب کی وجہ تصنیف کیا بیان فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب کیوں لکھی ہے؟ وہ فرماتے ہیں: ’’کتاب میں نے اس لیے لکھی کہ فقہاء کے اختلاف کے حوالے سے جو مختلف احادیث لوگوں کے سامنے آتی ہیں تو عام آدمی کا یہ تاثر بنتا ہے کہ حدیثوں میں بہت تناقض ہے، بہت تعارض ہے۔ ایک بات میں دس دس حدیثیں متعارض ہیں، اس لیے عام کمزور مسلمان تشویش میں پڑتا ہے اور ملحدین اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک مسئلہ میں دس حدیثیں مختلف آگئیں۔ ایک میں کچھ ہے اور دوسری میں کچھ ہے، تیسری میں کچھ ہے اور چوتھی میں کچھ ہے۔ اس سے عام کمزور آدمی سوچے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے، مسئلہ ایک ہے اور حدیثیں اتنی اور بالکل متعارض ہیں۔ جبکہ ملحدین اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ان حدیثوں میں تعارض ہے۔ حالانکہ تناقض و تعارض نہیں ہے۔ تیئس سالہ زندگی میں پھیلی ہوئی حدیثیں ہیں۔ (جاری ہے)