شرم پروف کرپشن اورپاکستان

(گزشتہ سے پیوستہ) دنیابھرسے ثبوت جمع کئے گئےاوران ثبوتوں کی بنیادپرمحترمہ اورمحترم کیخلاف سوئٹزر لینڈ اورسپین کی عدالتوں میں مقدمے دائرکئے گئے، پاکستان کی عدالتوں میں بھی مسلسل گیارہ سال تک مقدمے چلتے رہے،ان گیارہ برسوں میں حکومت بینظیربھٹوکے خلاف دوارب ڈالرکی کرپشن کے ثبوتوں کے دعوے کرتی رہی لیکن پھر 2007ء میں اچانک حکومت کو محترمہ بینظیر بھٹوکی ضرورت پڑگئی چنانچہ ایک آف سیٹ کاغذ پردس لائنیں ٹائپ ہوئیں،ان لائنوں کے نیچے ایک دستخط ثبت ہوااوربیک جنبش قلم محترمہ اور ان کے ساتھیوں کوکرپشن کےتمام الزامات سےپاک وپوترقرار دے دیاگیااورجس کے بعدبدنام زمانہ رحمان ملک،ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج کے ساتھ سیاسی معاملات طےکررہاتھاکہ کس طرح بینظیرکوسرکاری پروٹوکول اورسیکورٹی فراہم کی جائےگی جبکہ حکومتی عہدیدار ببانگ اعلان کر رہےتھے کہ میاں نوازشریف بھی ملک واپسی پران تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوئے۔
دورنہ جائیں،پی ڈی ایم کی حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے نیب کے قوانین میں ترامیم کاایسا بل پاس کروالیاجس سے کل کےتمام کرپشن کےمقدمات نہ صرف خارج ہوگئے بلکہ ان قوانین میں یہ شق بھی رکھ دی گئی کہ دس کروڑتک کی کرپشن اورغبن کے مقدمات کونیب ہاتھ نہیں لگاسکتی اورکسی مقدمے میں نیب کرپشن ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو متعلقہ تفتیشی افسرکو جیل کی سلاخوں کےپیچھےجانے کے ساتھ ساتھ خطیررقم جرمانہ بھی دیناہوگاتواس حال میں کون سا احمق ہوگاجوکرپشن کےان مجرموں کوپکڑنے کی جسارت کرے گا۔ابھی حال ہی میں ایک مرتبہ پھر اس میں محض اس لئے تبدیلی لائی گئی ہے تاکہ اپنے سیاسی مخالفین کے گردحلقہ مزیدتنگ کیاجاسکے۔ آپ ذراتصور کیجئے وہ بے چارہ بوڑھا کرپشن کے معانی ہی نہیں جانتا تھا ،اسے کیا معلوم اخلاقی ، سماجی ، سیاسی اورمالیاتی کرپشن کیاہوتی ہےجس میں حکومت سے ہاتھ ملانے والوں کے تمام مقدمے واپس ہوجاتے ہیں اورجس میں حکومت مہربانوں کو ملکی خزانے سے لوٹے ہوئے اربوں روپے کے قرض بیک جنبش قلم معاف کردیتی ہے لہٰذامیراخیال ہے وہ بوڑھا کوریائی مینیجرصرف نیشنلٹی کےہاتھوں مارا گیا، اگروہ سن شی آن کی بجائے 3ہزار4سو90 کلومیٹردورلاہور،سندھ، اسلام آبادمیں پیدا ہوجاتا تو وہ نہ صرف رائے ونڈ کے محلات ، ہربڑے شہرمیں بلاؤل ہاس یابنی گالہ اور زمان پارک میں خوشحال زندگی گزاررہاہوتابلکہ اس کاشمارملک کےانتہائی بارسوخ،بااثر اور معزز ترین سیاسی شخصیات میں ہوتا،وہ ملک کی کسی نہ کسی اہم وزارت پر متمکن ہوتااور اسے پاکستان میں بلٹ پروف گاڑی کی سہولت بھی حاصل ہوتی، چاروں طرف خدام اورجی حضوریوں کاایک ہجوم بھی ہوتااور اس کی اگلی سات نسلیں غیرممالک میں عیش وعشرت کی زندگی گزاررہے ہوتے اور وہ صرف پاکستان میں حکومت کیلئے آتے اور یہاں کی عوام کودودھ اورشہدکی نہروں کے سبزباغ دکھا کراپنی حکومت کے شاہانہ اخراجات کو اپنا مادرپدرحق سمجھ کرڈکارنے پرکبھی شرم بھی محسوس نہ کرتے۔میرا خیال ہے یہ بے چارہ کوریائی مینیجرشہریت کے ہاتھوں مارکھاگیاتھا،اگر یہ پاکستان میں ہوتاتویہ ملک توڑدیتایابیچ دیتا،اسے پاکستانی پرچم کاکفن بھی نصیب ہوتااور21توپوں کی سلامی بھی۔ یادرکھیں کہ جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کےپنجرے کی اسیرہوئی،اسکےنتیجے میں خلقت صرف حقیر ہوئی ۔ عوام کے سامنے اپنے تمام عیوب،ناکامیاں گزشتہ حکومت پرڈال کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی۔صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے،اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کودئیےگئے ریلیف سےہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔ انسان کے جذبات ناقابل تسخیر ہوتے ہیں مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسےکم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کےدرمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ اب اس بیمارسوچ کو ذہن سے کھرچ کرنکالناہوگاکہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔سیلاب اور زلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ سرکارکادعویٰ ہے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ سے بچالیاہے۔اگریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہترہوگیا ہے ،لوگ توتب مانیں گے۔ تمہیں ملنے سے بہتر ہوگیا ہوں میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتاجس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے’’تربتر‘‘رہتی ہیں۔ امید کسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمار ہوجاتی ہے۔امیدکو بارودکے ساتھ ساتھ ’’نمرود‘‘سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی تو سمجھوکہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب میڈیا پر اس طرح فتح کےڈونگرے برسائےجارہےہیں جیسا کہ جلدہی شہد اوردودھ کی نہریں بہناشروع ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سننےکومل رہا ہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلےکرنےپڑے ہیں۔اوپرتبدیلی آگئی ہے مگرنیچے اسی طرح کےسخت فیصلے ہوں گے؟گستاخی معاف!اس کا مطلب تویہ ہواکہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔ اپنے اداروں کی توقیرکاخیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبروہونے میں دیرنہیں لگے گی۔ عظیم لوگوں اورممالک کی تباہی اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب ان کوعوامی مفادکی بجائے ذاتی مفاد اوردولت کی لت پڑجاتی ہے۔ جب یہ دولت کی ہوس ان کے ضمیر کو مردہ کردیتی ہے تووہ پھرعوامی خدمت کے نام پر عوام کودھوکہ دیتے ہوئے خدمت خلق چھوڑ کر اپنی نہ ختم ہونے والی ہوس کی تکمیل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ان حالات میں عوام کی خاموشی خودان پرظلم وستم اور ابتلا کا ایسا دورطاری کردیتی ہے کہ وہ پھرانہی ظالموں اور کرپٹ افرادسے امیدیں لگاکراپنے بھروسہ اوریقین کوان کے قدموں میں نچھاورکردیتی ہے۔