روک سکو تو روک لو! تبدیلی گئی جے

آزادی پسندانقلابیوں اور ٹائیگرز کا پی ٹی آئی سے خروج ہوتا دیکھ کر دل کرتا ہے کہ عمران نیازی سے اپیل کی جائے کہ اگر پی ٹی آئی میں کوئی ”گوئیا” رہ گیا ہو تو اسے کہیں کہ وہ ڈی جے بٹ سے مل کر اک نیا سونگ تیار کرائے کہ جس کی ابتدا کچھ یوں ہوکہ ”روک سکو تو روک لو! تبدیلی گئی جے ”کوئی طاقتور خاندان کی امیر ترین خاتون خدیجہ شاہ اور آرمی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار لڑکیوں اور لڑکوں سے پوچھ کر قوم کو بتائے کہ کیا اب بھی ان کا عمران خان دے جلسے وچ نچڑیں نوں دل کردا؟
امریکی کانگرس کے یہودی صلیبی اراکین پارلیمنٹ، کینیڈین اراکین پارلیمنٹ اسرائیل کا گولڈ سمتھ خاندان، انٹرنیشنل سطح پر دجالی قادیانی لابی ہو یا امریکی سی آئی اے کا پالتو زلمے خلیل زاد اگر یہ سب مل کر بھی پی ٹی آئی سے فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہاں، شیریں مزاری، وغیرہ وغیرہ کا خروج نہیں روک سکے تو پھر قوم پریشان نہ ہو، آرمی تنصیبات پر حملوں کا پروگرام بنانے، کارکنوں کو اکسانے اور حملوں میں شریک ہر مجرم کو سزا ملتے ہوئے 23کروڑ عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر کو اللہ سلامت رکھے، زلمے زاد سمیت عالمی صہیونی، صلیبی اسٹیبلشمنٹ ان کے پیچھے جس طرح سے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے اس کی وجہ سے پاکستانی عوام کے دل و دماغ میں ان کی محبت مزید بڑھ گئی ہے، میری ان سے گزارش ہے کہ اگر 9مئی کے حملوں میں عمران نیازی کی انوالمنٹ واضح طور پرثابت ہو رہی ہے تو پھر انہیں فی الفور گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر معاملہ دوسرا ہے، عمران خان، تحریک انصاف اور اس کے رہنما ”تبدیلی” اور ریاست مدینہ کے نام پر جس طرح پاکستانی عوام سے مذاق کرتے رہے، وہ سارا کچھ کھل کر سامنے آچکا ہے۔
یہ کیسے ”آزادی” کے متوالے ہیں کہ جو چند دن کی گرفتاری برداشت نہ کر سکے؟ یہ کیسے ”انقلابی” ہیں کہ جن کا سارا انقلابی نظریہ مئی کے پسینے میں بہہ گیا؟ مولانا طارق جمیل تک اگر اس خاکسار کا پیغام پہنچ سکے تو انہیں چاہیے کہ وہ ان سارے عمرانی ٹائیگرز کو ایک لیکچر صبر اور برداشت پر بھی دیں، گوانتاناموبے کے قید خانوں کا نام کس نے نہیں سنا؟ شبرغان، بالگرام ائیربیس کی جیل کے تذکرے کس نے نہیں سنے؟ مولانا طارق جمیل ان امریکی قید خانوں میں سالہا سال تک قید کاٹ کر رہا ہونے والے زندہ دل مجاہدوں سے شائد کبھی نہ ملیں ہوں، لیکن یہ خاکسار ان امریکی قید خانوں سے رہائی پانے والے پاکستانیوں سے مل چکا ہے، ان میں سے ہر ایک آج بھی جہاد کو اللہ کا حکم اور رسول کریمۖ کی عظیم سنت سمجھتا ہے، قید و بند کی بے پناہ صعوبتیں جھیلنے کے باوجود ان کا نہ نظریہ جہاد بدلا اور نہ ہی سوچ میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی، جو سختیاںگوانتاناموبے کے قیدیوں پر امریکیوں نے کیں، ان کا 100 واں حصہ بھی عمرانی آزادی پسند ٹائیگرز کے حصے میں نہیں آیا، مگر یہاں تحریک انصاف سے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، سچی بات ہے کہ میرے جیسے طالب علم کو بنی گالا کے ”آزادی پسندوں” اور زمان پارک کے ”انقلابیوں” کی اس بدترین ”بزدلی” نے شدید شرمندہ کر دیا ہے، سنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں میں بھی بعض بنی گالا اور زمان پارک مارکہ انقلابی گھسے ہوئے ہیں اور بیرون ممالک میں رہ کر انہیں بھی ”آزادی” کی بڑی سخت ”خارش” رہتی ہے، اس لئے وہ گاہے بگاہے، انڈیا کے ہندوئوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے علماء اور افواج پاکستان بالخصوص آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر کے خلاف نعرے لگاتے ہیں بدنسلوں کی طرح اچھلتے کودتے پاکستان کی طرف منہ کرکے خوب بھونگتے ہیں، بیرون ملک آزادی کی خارش میں مبتلا ایسے اوورسیز پاکستانیوں سے میری گزارش ہے کہ وہ فی الفور پاکستان آجائیں تاکہ یہاں پر حکیم رانا ثناء اللہ ان کی ”خارش” کا خاطر خواہ علاج کر سکیں، انگریزوں کے کتے نہلا کر پاکستانی آرمی چیف کو گالیاں بکنے والوں کا اگر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پاکستانی ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انگریز کے ان ”نخچیروں” کو قانون کی لگام ڈالنے کی تیاری کرے، عالمی صہیونی طاقتیں اگر اپنے پاکستانی گماشوں کے ذریعے پاک فوج پر حملہ آور ہو کر پاکستان کو عراق، لیبیا یا شام بنانا چاہتی ہیں تو پاکستانی عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ عالمی گماشتوں کے ایسے دانت کھٹے کریں گے کہ جو انہیں مدتوں تڑپاتے رہیں گے۔
دولت مند خاتون خدیجہ شاہ سمیت دیگر گرفتار دولت مندوں سے بھی انکوائری کی ضرورت ہے کہ یہ دولت کے گھوڑے پر بیٹھ کر کون سی ”آزادی” کی تلاش میں کور کمانڈر ہائوس و دیگر آرمی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے تھے؟ پاکستانی آرمی تنصیبات پر حملہ آور ہونا، بھارت اور اسرائیل کا خواب تھا، اس خواب کو پورا کیا۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے بلوائیوں نے، آج اگر اسرائیل اور بھارت میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ ”عمران خان ! پورے بھارت کا بھائی جان” کے نعرے لگائے جارہے ہیں، امریکی گماشتہ زلمے خلیل زاد ہمارے آرمی چیف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہا ہے، امریکی اور اسرائیلی لابی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، کیا یہ ایسے ہی ہے؟
جرنیلوں سے مجھے اختلاف بھی رہا، اب بھی ہے اور ممکن ہے آئندہ بھی رہے، لیکن جب وطن کی حفاظت کا مرحلہ آیا تو ہم سارے اختلافات کارپٹ کے نیچے ڈال کر پاک فوج کے شانہ بشانہ صف اول پر رہنا زیادہ پسند کریںگے، وقت اور حالات نے ثابت کر دیا کہ ان میں سے ایک بھی نہ حقیقی آزادی پسند، نہ متوالا، نہ جیالا اور نہ ہی انقلابی، نہ ان کی کوئی سوچ اور نہ نظریہ، یہ سارے قومی خزانے کو جونکوں کی طرح چمٹے رہے، افسوس کہ فواد چوہدری، شیریں مزاری اینڈ کمپنی پاکستانی قوم کے خون پسینے کی کمائی سے سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتی رہی، ”افسوس، صد افسوس!”