Your theme is not active, some feature may not work. Buy a valid license from stylothemes.com

کوئی ایسا حل نکالیں گے جس سے تصادم سے بچ جائیں ،عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(نیوزڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی درخواست پر سماعت شروع،خواجہ حارث کیس کے فیکٹس کے متعلق بتا رہے ہیں،خواجہ حارث اسلام آباد ہائیکورٹ کے 7 مارچ کا آرڈر پڑھ رہے ہیں،13 مارچ کو عمران خان ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش نہ ہو سکے ،خواجہ حارث،اس دن عمران خان کہاں تھے ؟چیف جسٹس کا استفسار،میں نے ٹرائل کورٹ میں توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت ہونے پر اعتراضات اٹھائے ،خواجہ حارث کا جواب،توشہ خانہ کیس کیوں قابل سماعت نہیں ؟خواجہ حارث قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھ رہے ہیں۔وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت نہ ہونے پر دلائل دیئے لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل نے کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کیلئے وقت مانگا ،،ہم نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری جاری کرنا بنتا ہی نہیں،فوجداری مقدمات اور ضمانت کی کیسز میں فرق ہے،۔ٹرائل کورٹ کے وارنٹ فیلڈ میں تھے اور ابھی بھی ہیں ،چیف جسٹس،خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وارنٹ گرفتاری جاری نہ کریں جب تک درخواست قابل سماعت نہ ہو، الیکشن کمیشن ایکٹ کے تحت ہی وہ شکایت درج ہی نہیں کرائی گئی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت الیکشن کمیشن خود ہی شکایت درج کرسکتا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہے، میں نے ٹرائل کورٹ سے کہا کہ کیس کے قابل سماعت پر فیصلہ کر دیں ،عمران خان پیش ہو جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت فرد جرم عائد کرنے سے پہلے آپ کے اعتراضات پر فیصلہ کر سکتی تھی ،لیکن آپ کے کلائنٹ کو پیش ہونا چاہئے تھا ۔ٹرائل کورٹ کے جج نے میرے قابل سماعت کے دلائل پر آرڈر میں کچھ نہیں لکھا،جو کچھ لاہور میں ہورہا ہے وہ بدقسمتی ہےعمران خان نے تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ 18 مارچ کو پیش ہوں گے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد روسٹرم پر طلب،خواجہ حارث نے کہا کہ میں ذاتی یقین دہانی کراتا ہوں کہ عمران خان پیش ہوں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو لاہور میں ہورہا ہے وہ ضروری ہے لیکن اس سے ضروری میرے لیے اپنی عدالتوں کا احترام ہے ،قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے ۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 120 دنوں کے اندر الیکشن کمیشن نے فوجداری مقدمہ درج کرنا ہوتا ہے،ٹرائل کورٹ میں اس نکتے کو اٹھانے پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کچھ کہنے سے معذرت کرلیالیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ میں ابھی یہ نہیں بتایا کہ مقدمہ وقت پر درج ہوا یا نہیں،سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس فوجداری مقدمہ ٹرائل کورٹ بھیجنے کا اختیار ہی نہیں،کیا ابھی تک درخواست کے قابل سماعت پر بحث ہوئی ہی نہیں ؟ عدالت کا استفسارابھی تک صرف ہماری حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر بحث ہوئی،خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آج ٹرائل کورٹ کو بتایا ہے کہ کمپلینٹ ہی قابل سماعت نہیں،چیف جسٹس نےکہا کہ وارنٹ دوبارہ جاری ہونے کا ایشو نہیں،عدالت نے کہا تھا تیرہ مارچ کو پیش ہوں ورنہ وارنٹ بحال ہو جائے گا، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کمپلینٹ دائر کر سکتا ہے،الیکشن کمشنر یا کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کی اتھارٹی دی جا سکتی ہے،جب کمپلینٹ دائر کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئےاس صورت میں وارنٹ جاری کرنے کی کارروائی بھی درست نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ہم نے بتایا کہ پہلے کچھ گذارشات پر ہمیں سنیںہماری درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا ہم وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیس جو بھی ہو مگر ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ عمران کان کو 18 مارچ کو پیش کرنا ہے تو گرفتار آج کیوں کیا جارہا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر چار روزے پہلے گرفتار کریں گے تو کہاں رکھیں گے ؟یہ اہم سوال ہے،اگر پیش 18 کو کرانا ہے تو گرفتاری 14 یا 15 کو ہی کیوں ؟پولیس پر حملہ ریاست پر حملہ ہے ،ہم نے معاملے کو حل کی طرف لے کر جانا ہے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اگر عمران خان 18 کو پیش نہ ہوئے تو امید ہے کہ خواجہ حارث وکالت چھوڑ دیں گے ، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف جب اشتہاری ہوئے تو میں نے ان کی وکالت چھوڑ دی تھی۔آج ٹرائل کورٹ کو بتایا ہے کہ کمپلینٹ ہی قابل سماعت نہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔