آخرکار نگراں وزیراعظم کافیصلہ ہوگیا

آخر کار کافی انتظار کے بعد نگراں وزیراعظم کا فیصلہ ہوگیاہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بات چیت کے بعد انوارالحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم بنانے کافیصلہ کیا گیاہے۔ ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بلوچستان کی ترقی پسند پارٹی‘ نیشنل پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔انوار الحق کاکڑ پاکستان کے آٹھویں نگراں وزیراعظم بنے ہیں۔ جن کا تعلق زمینی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے ہے۔ اس سے قبل ظفر اللہ جمالی کا بھی تعلق صوبہ بلوچستان سے تھا وہ ایک اچھے وزیراعظم ثابت ہوئے تھے‘ ہرچند کہ ان کے اقتدار کا سورج زیادہ عرصہ تک نہیں چمکاتھا۔

اب سینیٹر انوار الحق کاکڑ بحیثیت نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔ انہیں پاکستان کے جملہ مسائل کا بخوبی علم ہے‘ خصوصیت کے ساتھ بلوچستان کا ‘ جہاں وقفے وقفے سے دہشت گردی ہوتی رہتی ہے۔ یہ دہشت گردی‘ جس میں بی ایل اے نام کی تنظیم شامل ہے‘ سی پیک کے خلاف بھارت کی ایماء پر ایک منظم انداز میں کام کررہی ہے‘ حالانکہ ان گمراہ بلوچی نوجوانوں کو سمجھانے کی بہت کوششیں کی گئی ہیں لیکن اس کے باجود وہ دہشت گردی جیسی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئے ہیں۔ حالانکہ ان کے بہت سے ساتھیوں نے دہشت گردی کرنے سے انکار کردیاہے اور وہ باعزت روزگار کے ذریعے نئی زندگی گزارنے کا عزم کرچکے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کو اس بات کا علم ہے کہ سی پیک کاچین اورپاکستان کے درمیان اقتصادی منصوبہ پاکستان کے لئے لائف لائن بن چکاہے۔ اس منصوبے کا پہلا فیزمکمل ہوچکاہے جبکہ اب دوسرا فیز شروع ہونے والا ہے۔پہلے فیز میں پاکستان کو چین سے براہ راست25.8ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری حاصل ہوئی تھی۔ جس میں 14سے زائدمختلف نوعیت کے منصوبے مکمل ہوئے تھے جس میں گوادر پورٹ کے علاوہ‘ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ گوادر ٹیکنیکل سینٹر‘ چین پاکستان دوستی ہسپتال وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر کے عوام کے لئے پینے کے صاف پانی کے سلسلے میں desalination پلانٹ نے باقاعدہ کام شروع کردیاہے۔ خواتین کو معاشی طور پرخودکفیل بنانے کے لئے ایک تربیتی سینٹر بھی تعمیر ہوا ہے جس میں خواتین کو متعدد قسم کے ہنر سکھائے جارہے ہیں ۔ یہ سی پیک کے حوالے سے یہ مختصر احوال اس لئے لکھ رہاہوں کہ انوار الحق کاکڑ کواس حقیقت کا ادراک ہوجائے کہ سی پیک بلوچستان سمیت پاکستان کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ انوار الحق کاکڑ کاسب سے پہلا کام یہ ہوناچاہیے کہ وہ بلوچستان کے نوجوانوں کا سی پیک کے حوالے سے اعتماد بحال کریں اور انہیں بتائیں کہ سی پیک کے ذریعے نہ صرف بلوچستان غیر معمولی ترقی کررہاہے بلکہ پوراپاکستان بھی۔ ان کا نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے تقرری بھی سی پیک کومزید ترقی دینے اور دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے ہوئی ہے۔ یہاں یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ انوارالحق کاکڑ سی پیک کے حوالے سے اس کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہیں بلکہ انہوں نے بحیثیت سینیٹر اس اہم اقتصادی منصوبے سے متعلق اپنے مثبت خیالات کااظہار بھی کیاہے۔ وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ سی پیک کی راہ میں کسی قسم کی اندرونی یابیرونی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ چین اور پاکستان کے درمیان یہ عظیم معاشی منصوبہ ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتاہے۔ اس منصوبے کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو ملازمتیں بھی ملی ہیں جس کا ماضی میں کوئی تصور نہیں کرسکتاتھا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کیونکہ جب نئے اکنامک زون (چودہ سے زیادہ) اپناکام شروع کردیں گے تو نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ملازمتوں کے حصول میں سب سے پہلا حق بلوچی عوام کاہے اور ہونا بھی چاہیے۔ دوسرااہم مسئلہ جونگراں وزیراعظم کے لئے خاصی تشویش کاباعث بنے گا وہ مہنگائی کامسئلہ ہے جوکم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کو کم کرنے کے لئے انہیں اپنے ساتھیوںسے مشورہ کرناہوگا۔ کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ اگروہ مہنگائی کوکم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عوا م کی نگاہوں میں ان کی عزت وتکریم میں اضافہ ہوگااور معاشرے میں پائی جانے والی مایوسی میں کمی ہوگی۔ تاہم اس سلسلے میں دیکھنایہ ہے کہ انہیں سیاستدانو ں کی جانب سے تعاون ملتاہے کہ نہیں؟ میرا خیال ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت ان کے ساتھ تعاون کرے گی‘ کیونکہ پاکستان ابھی تک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا ہے‘ جس کے لئے سیاسی استحکام کا ہوناضروری ہے ‘ پاکستان کے سیاستداں اس حقیقت سے بہت حد تک واقف ہیں۔وہ یقینی طور پر ملک اور عوام کے وسیع ترمفاد میں نگراں وزیراعظم کے ساتھ نہ صرف تعاون کریں گے بلکہ انہیں اہم مشوروں سے بھی نوازیں گے تاکہ ملکی معاملات بہ احسن خوبی آگے کی جانب بڑھتے رہیں۔ لیکن وزیراعظم کو ان عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ہر حکومت کے ساتھ چاپلوسی اور خوشامد کرکے نہ صرف ان کا’’ اعتماد‘‘ حاصل کرلیتے ہیں بلکہ کرپشن کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ جو موجودہ حالات میں پاکستان کے لئے کئی مشکلات پیداکرنے کا سبب بناہواہے۔ بہرحال اب انوار الحق کاکڑ نگراں وزیراعظم بن چکے ہیں ‘ پروٹوکول بھی مل چکاہے۔ اس طرح اب ان کی سب بڑی ذمہ داری غیر جانبدار اور اشفاف انتخابات کرانے ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی ضرورت غیر جانبدارا نہ شفاف انتخابات کاانعقاد ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے بلکہ ہوجاناچاہیے تو پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا ہونا یقینی ہے ‘ ورنہ بصورت دیگر حالات میں معنوی تبدیلی نہیں آسکے گی اور عوام مسلسل کنفیوژن کا شکار رہیں گے۔