میں ہوں پاکستان!

میں ہوں ایک لاچارفریادی،زخموں سے چورچوراورمیرا نام ہے پاکستان مجھ سے منسوب سرزمین پاکستان پر بسنے والو آج مجھے وجود میں آئے76 برس ہو گئے ہیں۔آج میرا آپ سے یہ گلہ ہے کہ میری فکر کسی کو بھی نہیں،کوئی کرسی بچانے کی فکر میں ہے تو کوئی کرسی پانے کی فکر میں،ان76 سال میں میری سینے پرجوبھی سوارہوا،ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے مختلف نہ پایا۔سب ہی میرے سینے پر فقط بوجھ کے سواکچھ نہیں رہے۔میری کرسی تو کسی ایوبی، ابدالی، غوری،غزنوی کی منتظر رہی مگر اس پر آج تک میر جعفر اور میر قاسم ہی بیٹھتے رہے۔ان موجودہ نام نہاد لٹیروں کا اس کرسی پہ بیٹھنے سے تو بہتر ہے کہ یہ کرسی خالی رہے کسی ایوبی کسی ابدالی کے انتظار میںاگر میرے ساتھ یہی کچھ کرنا تھا تو پھر مجھے دو قومی نظریہ کاخواب دکھاکر آزاد کیوں کیا ۔بچپن سے میرے کانوں میں گونجتانوحہ میراتعاقب کررہاہے کہ اس وطن عزیزکے لئے 56 افرادکا قافلہ نکلالیکن پاکستان کی حدودکی خاک چومنے کے لئے صرف23افرادپہنچ سکے،اپنی آنکھوں کے سامنے سب کوکٹتے دیکھالیکن دل میں یقین تھاکہ شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی اورہم نے جواپنے رب سے اوفوبالعہد کیا ہے ،وہ ہرحال میں پورا کیا جائے گا۔یقینارمضان الکریم کی 27ویں متبرک رات کومعجزاتی ریاست کاقیام اس صدی میں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑاانعام تھا،لیکن ہواکیا؟پاکستان کی چیخیں اورکرب بھری فریاد کانوں کوکیوں سنائی نہیں دے رہی کہ وہ پکاررہاہے کہ میں شدیدزخمی ہوں،مجھے اورمت مارو۔مجھے اورمت نوچو،مجھے اورمت چباؤ،مجھے اورمت کھاؤ۔میری بس ہوگئی ہے،میں ہمت ہارچکاہوں،مجھے چھوڑدو۔مجھے معاف کردو،خدارا!مجھے بخش دو۔میں نے تم کودل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا میں نے تم سے کیاکیا اور تم نے کیا دغا کیا 14اگست 1947ء کو جب میں معرضِ وجود میں آیا تو سب سے پہلے میرے نام کے وسیلے سے پہلا رزق جو اس دھرتی پر رہنے والوں نے کمایا وہ تھا لفظ پاکستانی جو آپ سب کی شناخت بنا۔ ذرا سوچئے لفظ پاکستانی کی شناخت سے پہلے اسی سر زمین پر بسنے والے متعصب ہندو اپنی نفرت کا اظہار کرتے آپ کو کس نام سے پکارتے تھے۔ وہ رب جس کے قبضے میں آپ سب کی جان ہے اسے حاظر ناظر جان کر سچے دل سے بتائیے سوائے انگریزوں کے چند زر خرید ضمیر فروش جاگیرداروں کے آپ میں سے کتنے میرے وجود میں آنے سے پہلے اپنی زمینوں کے مالک تھے۔ آپ میں سے کتنے چند بڑے بڑے نوابوں کو چھوڑ کر بڑے بڑے گھروں اور فارم ہاؤسوں میں رہتے تھے۔ آپ میں سے کتنے بڑے بڑے کاروباروں، دوکانوں اور پلازوں کے مالک تھے،آپ میں سے کتنے کتنی فیکٹریوں کے مالک تھے۔ آپ میں سے کتنے اس وقت کی سول سروس میں اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ میری ذات کے وسیلے سے لفظ پاکستانی کی شناخت کے بعد اگلا رزق جو آپ لوگوں نے کمایا وہ تھا کسی بندش کسی خوف کے بغیر رہن سہن کی وہ آزادی جس میں سب سے بڑی نعمت تھی مذہبی آزادی اور اپنا تہذیب و تمدن۔ اس سے اگلا پھل جو میرے شجر سے آپ لوگوں کی جھولیوں میں گِرا وہ تھا باوقار ذریعہ معاش جو آپ کی مالی آسودگی کا سبب بنا لیکن افسوس از حد افسوس آپ لوگوں کی اکثریت نے ان میں کسی بھی معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ روزمرہ کے معاملات تو درکنار حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملے میں بھی آپ کی اکثریت خوفِ خدا کو خاطر میں لانا بھول گئی۔ آپ کی فکری اساس جس کا محور اجتماعی بھلائی ہونا چاہئے تھا وہ انفرادی دائروں کی مقید ہو گئی اور تم لوگ مالی ہوس کا شکار ہو گئے۔ میرے حق پر جو سب سے پہلا ڈاکہ ڈالا گیا اور جو سب سے بڑا ظلم ہوا وہ تھا جعلی کلیموں کے ذریعے متروکہ وقف املاک کی بندر بانٹ۔ حقیقت میں ان جائیدادوں کا کوئی مالک تھا تو وہ تھا صرف میں جس کا نام تھا پاکستان۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان جائیدادوں کے حقوق ریاست پاکستان کے پاس ہی رہتے جس کے ذیلی ادارے یہ جائیدادیں پھر مستحق لوگوں کو کرائے پر دیتے جیسا کہ اس وقت برطانیہ میں یہ کام وہاں کی کونسلیں کرتی ہیں اور پھر یہ کرائے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہوتے جو انفرادی کی بجائے اجتماعی رفاعہ عامہ کے منصوبوں پر خرچ ہوتے، لیکن ہوا اس کے برعکس جس کے نتیجے میں معاشرتی تفریق کی ایک ایسی وسیع خلیج وجود میں آئی جس کے پاٹ لاکھ کوششوں کے باوجود آج تک آپس میں مل نہیں پائے اور جس کی وجہ سے معاشی ناہمواری کا ایک ایسا ناسور پھیلا ہے جس نے میری جڑوں کو کس حد تک کمزور کیا ہے یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا۔ لیکن اس سے بڑھ کر جن زخموں نے میرے وجود کو گھائل کیا وہ تھی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی آپس کی ریشہ دوانیاں، بجائے اس کے کہ وہ میرے وجود کی طاقت اور نشونما کے لئے کوئی نسخہ کیمیا، کوئی آئین تجویز کرتے انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں اسطرح کھینچنا شروع کر دیں کہ خدا پناہ۔ جس کا نتیجہ ایسا نکلا کہ میری حفاظت پر مامور میرا ہی چوکیدار میرا مالک بن بیٹھا۔ میری بدنصیبی دیکھئے میرے ازلی دشمن نے جب یہ دیکھا کہ میرا چوکیدار اپنی بندوق ایک طرف رکھ کر گھر کے دوسرے کاموں میں لگ گیا ہے تو اس نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اورجارحیت کی صورت میں اس نے سیدھا میرے وجود پر حملہ کر دیا۔ شومئی قسمت نہ اربابِ اختیار نے اور نہ عوام الناس نے اس سے کوئی سبق سیکھا کہ جب کوئی اپنے فرائض سے رتی بھر بھی ذرا ادھر سے ادھر ہوتا ہے تو دشمن ایک منٹ کا بھی ادھار نہیں کرتا اور وہ سیدھا آپ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو میرے وجود کا حاصلِ مقصد تو یہ تھا کہ یہاں لوگ اپنے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر اپنے اپنے رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کے طابع اپنی اپنی زندگی گزار سکیں لیکن میری اس زمین پر بسنے والے اتنے آزاد پسند واقع ہوئے کہ انہوں نے انتظامی اور اخلاقی تمام حدود اور قیود کواس طرح خیر باد کہا کہ لفظ دیوالیہ پن بھی حقیر نظر آنا شروع ہو گیا۔ میری اس دھرتی کے باسی لفظ پاکستانی بھول گئے کوئی بنگالی کہلانے پر فخر کرنے لگا تو کوئی یہ کہنے لگ پڑا کہ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔ کوئی پختون ہونے پر مان کرنے لگا تو کوئی اپنے آپ کو سندھی اور بلوچی کے نام سے متعارف کروانے میں اپنا فخر سمجھنے لگا۔ مذہبی آزادی کا اتنا فائدہ اٹھایا کہ کوئی شیعہ تو کوئی سنی، کوئی وہابی تو کوئی بریلوی، کوئی سلفی تو کوئی جھنگوی۔ کوئی ان سے پوچھے لفظ پاکستانی اور مسلمان جو تمہاری اصل شناخت تھی جس کی وجہ سے تم علیحدہ وطن کے مالک بنے وہ کہاں گیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے ملک دو لخت ہو گیا۔ (جاری ہے)