مایوسیوں کے چھائے بادل

ہر طرف مایوسیوں کے بادل ہیں، حالات پر غور کرتا ہوں تو رونا آتا ہے، کس طرح میری دھرتی کو اجاڑ کر رکھ دیا گیا ہے‘ یہ ماہ و سال کس قدر بھاری ثابت ہوئے اس کا اندازہ آہوں، سسکیوں اور بجھتے ہوئے چراغوں سے لگایا جا سکتا ہے، کیا شاندار وطن تھا، اس وطن کی معیشت ، معاشرت اور اخلاقی اقدار کو نجانے کس الو کی نظر لگ گئی ،تاریک ترین عمرانی دور تو لد گیا،مگر کیا موجودہ حکمرانوں کے سینوں میں کہیں دل بھی ہے؟ ہر طرف دکھوں کی بستیاں ہیں، اندھیر نگری ہے، ظالم کا رعب اور دبدبہ ہے، مظلوم کی جھولی میں آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پانچ طرح کے لوگ تھے، اب دو طرح کے لوگ جا چکے ہیں اور تین طرح کے باقی رہ گئے ہیں… جانے والوں میں پہلے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کے پاس سرمایہ تھا، جائیدادیں تھیں،وہ اپنی جائیدادیں بیچ کر، سرمایہ سمیٹ کر کسی اور دیس جابسے، ایسے افراد میں خاندانوں کے خاندان شامل ہیں‘ دوسرے نمبر پر جانے والوں میں انتہائی پڑھے لکھے، عالی دماغ، پروفیشنلز ہیں یعنی ذہین لوگ دھرتی کے نظام سے روٹھ کر کہیں اور جا بسے ہیں‘ ان کے ان روئیوں کا میں حامی نہیں ہوں ،کیوں کہ میرا اس حوالے سے موقف بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ ’’وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو ‘‘ وطن چھوڑ کرجانے والوں کو اس ملک نے اعلیٰ تعلیم دی‘ شناخت دی،مان دیا سمان دیا،لیکن اگر وہ مشکل وقت میں ماں دھرتی کو چھوڑ کر یورپ یا خلیجی ممالک میں جا بسے ہیں تو ان کی مرضی، میرے ایک دوست نے ایک تحریر مجھے بھیجی جس کے مطابق،اب یہاں باقی تین طرح کے افراد رہ گئے ہیں، پہلے نمبر پر غریب افراد ہیں،ان کی غربت انہیں باہر نہیں جانے دیتی، دوسرے نمبر پر نالائق، نکمے اور کند ذہن ہیں، ان کے رستے کی بڑی رکاوٹ نالائقی ہے‘ تیسرے نمبر پر مجبور افراد ہیں،کوئی بوڑھی ماں کو نہیں چھوڑ سکتا، کسی کی ذمہ داری بوڑھا باپ ہے، کوئی بہنوں اور بیٹیوں کی وجہ سے مجبور ہے، خاندانی مجبوریوں کے باعث یہ لوگ باہر جانے سے قاصر ہیں، تیسری طرح کے لوگوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو پڑھے لکھے تو ہیں مگر ان کے پاس ہوائی ٹکٹ بھرنے کا سرمایہ نہیں، ایک ڈیڑھ برس میں قریباً تیرہ لاکھ افراد اس عظیم سر زمین کو چھوڑ گئے، اتنی بڑی ہجرت کا حکمرانوں پر کوئی اثر نہ ہو سکا، انہوں نے پارلیمان سے ستر سے زائد بل منظور کروائے،افسوس کہ یہ تمام بل حکمرانوں کے فائدے کیلئے منظور کئے گئے، عوامی مفاد میں کوئی بل پاس نہ ہو سکا‘ اربوں روپے کے نیب مقدمات ختم ہو گئے اور لوگ دیکھتے ہی رہ گئے… یہاں سے صرف افراد نے نہیں سرمایہ نے بھی ہجرت کی ہے، قریبا ً پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ چلا گیا اور کاروباری بندشوں کے باعث ملک کو تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا‘ جادوگری کے دعویداروں نے لوگوں کی زندگیوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اگر بجلی کا بل ادا کریں تو بچوں کی فیسیں رہ جاتی ہیں، اگر فیسیں دیں تو کھانے کو کچھ نہیں بچتا۔ اس گرہن زدہ دور میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لوگوں کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، حالات تبدیل نہیں ہو رہے، آسیب کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں‘ غربت میں اضافے کے باعث جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے، حکومت لوگوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر پا رہی… کیا پتہ کس موڑ پہ کون مارا جائے،کیا پتہ کس گلی میں کون لٹ جائے، حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی سول سروس کے لوگ بھی بیرون ملک منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ان کی تنخواہیں، اخراجات سے کہیں کم ہیں، اخراجات کے قد آمدنی سے کہیں اونچے ہیں، سفید پوشی کا بھرم رکھنا محال ہو گیا ہے… جب افسر شاہی کا یہ عالم ہے تو غریبوں کی بستیوں میں تو صرف آنسوئوں کے دیئے جلتے ہوں گے، ان کی خواہشات نے حسرتوں کا لباس پہن لیا ہو گا، پتہ نہیں ان کے خواب چرا کر کون لے گیا‘ ہمارے تمام شعبے زوال پذیر ہیں، پورا نظام تہس نہس ہو گیا ہے، غریبوں کی چمڑیوں سے بل بھروانے1 والوں نے کبھی سوچا کہ واپڈا کے ہر ملازم کو اٹھارہ سو یونٹ کیوں فری دئیے جاتے ہیں، واپڈا ملازمین کا ساڑھے پانچ سو ارب کا بل میرے ملک کے غریب ادا کرتے ہیں، افسران اور اعلیٰ عہدیدار دن رات اے سی استعمال کرتے ہیں، افسوس ان کی بجلی فری ہے مگر ایک کلرک اور مزدور جس کی آمدنی بہت کم ہے، اسے بجلی کا بل پورا ادا کرنا پڑتا ہے، کیا یہ سب کچھ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں تو خوشحالی کہاں سے آئیگی؟ نا انصافی، خوشحالیوں کو نگل جاتی ہے، ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کے تمام تاخیری حربے استعمال ہوتے ہیں، کبھی عدالتی اہلکاروں کی تنخواہوں پر غور کریں اور پھر عام سرکاری اہلکاروں کی تنخواہیں دیکھیں تو اس میں بھی انصاف نظر نہیں آئیگا… جہاں عدالت اپنے اہلکاروں اور دیگر سرکاری اہلکاروں میں انصاف کا بھرم قائم نہیں رکھ سکتی تو پھر معاشرے میں معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں صاف نظر آئیں گی‘ پھر بہاولپور جیسے واقعات کئی جگہوں پر ہوں گے، حالات دیکھ کر سرور ارمان کے چند اشعار یاد آ گئے ہیں کہ روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی ہر نظر کو آرزووں کا سمندر بخش کر ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا آشنائے حلقہ زنجیر کر دی جائے گی بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی