شہادت حسینؓ کامطالبہ

(گزشتہ سے پیوستہ) رسول کریمﷺکی یہ پیش گوئی امام حسنؓ کی زندگی میں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔حضرت امام حسنؓ کی بیعت40ھ میں اس حال میں ہوئی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔حضرت حسنؓ نے جب بیعت لی توآپؓ نے لوگوں سے یہ اقراربھی لیا کہ’’میں جس سے جنگ کروں گاتم اس سے جنگ کروگے،جس سے میں صلح کروں گاتم اس سے صلح کروگے‘‘بعد ازاں مدائن کے میدان میں حضرت معاویہؓ نے امام حسن بن علیؓ کویہ پیغام بھیجاکہ”جنگ سے بہترصلح ہے،مناسب یہ ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیں اور میرے ہاتھ پربیعت کرلیں”۔ امام حسنؓ نے غوروفکرکے بعداس پیشکش کو منظور فرمالیا اورخلافت امیرمعاویہ کے سپردکردی حالانکہ امام حسن ؓکے پرجوش حامیوں کو یہ’’بات‘‘ قبول نہ تھی۔آپ نے ایک تاریخی فقرے میں اپناجواب دیا”خلافت‘‘ اگرمعاویہ کاحق تھاتوان کوپہنچ گیا،اگرمیراحق تھاتو میں نے ان کوبخش دیا”۔اس صلح کے بعد حضرت امیرمعاویہ ؓنے حضرت امام حسن ؓکیلئے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقررکردیا۔ (حافظ ذہبی )
اس طرح امام حسنؓ کے پیچھے ہٹ جانے سے مسلمانوں کاباہمی اختلاف باہمی اتفاق میں تبدیل ہوگیااورمدائن کامیدان اسلامی تاریخ میں جمل وصفین کے بعدتیسری خونریزی کے عنوان سے بچ گیااورمسلمانوں کی وہ قوت جو باہمی جنگ وجدل میں مصروف تھی اورجس کی وجہ سے اسلامی فتوحات کاسلسلہ بھی ختم ہوچکاتھا،اب دوبارہ اسلامی فتوحات کی خبریں بہم پہنچارہاتھااوراسلام کی اشاعت وتوسیع جوان خانہ جنگیوں کی وجہ سے رک گئی تھی،اس کابھی بنددروازہ جس نے کھولاوہ حضرت امام حسنؓ ہی تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹناسب سے بڑی بہادری ہے۔اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جواس بہادری کیلئے اپنے آپ کو تیار کرسکیں،بظاہرتویہ میدان سے واپسی کافیصلہ تھا، اس سے مسلمانوں کی قوت باہم مقابلہ آرائی سے بچ گئی اوراسی طاقت نے مسلمانوں کی فتوحات کاخارجی میدان میں سکہ بٹھادیا۔اگراس وقت حضرت امام حسنؓ خلافت پراصرارکرتے تو عجب نہیں مسلمان پہلی صدی ہجری میں آپس کی خانہ جنگیوں میں بربادہوجاتے اوراسلام جوآج ایک عالمگیرمذہب چین سے لے کر مراکش تک اپنی برکات سے ہمیں فیض یاب کررہا ہے اس کی شکل کچھ اورہوتی توگویاغیرسرکاری طریق کار سے اختلاف کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوتی کیونکہ بعد کے حالات نے حضرت حسنؓ کے اس کردار کو بلاشبہ امت محمدیہﷺپرایک گراں قدراحسان ثابت کیاہے۔ لیکن اس کے ساتھ حضرت حسینؓ کے کردارپرنگاہ ڈالیں توان کے بھی طریق کارکوایسی تقویت ملتی ہے کہ جس نے”خلافت علی منہاج نبوت”کے تحفظ ،دفاع اوراس کے احیاء کیلئے قربانیوں کی ایک ایسی پرعزم تاریخ رقم کی ہے جو قیامت تک مظلوموں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔حضرت امام حسینؓ نے خلافت کے ادارے کو بچانے کیلئے کوفہ کے لوگوں کے سخت اصرار پر اپنے چچازادبھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کوکوفہ روانہ کیا،گو حضرت مسلم بن عقیلؓ اس منصوبے سے متفق نہ تھے تاہم حضرت حسینؓ کے اصرار پرکوفہ چلے گئے۔ تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً اٹھارہ ہزارآدمی ان کے ہاتھ پر بیعت ہوچکے تھے لیکن جب یزیدکے حکم پرعبیداللہ بن زیادنے حضرت مسلم بن عقیلؓ اوران کے کوفی میزبان ہانی بن عروہ کومحل کی چھت پر کھڑا کرکے قتل کردیاتوکوفہ والوں کو گویا یزید کا پہلا پیغام تھاکہ حضرت حسینؓ کی بیعت کی قیمت کیا ہوگی۔اسی وقت کوفہ والے خاموش اپنے گھروں میں دبک گئے اور حضرت حسینؓ جوکہ ان بے وفا لوگوں کی قیادت کیلئے آدھے سے زیادہ سفرطے کرچکے تھے،اپنے سفرسے بالکل واپس نہ لوٹے حالانکہ مکے میں تمام جلیل القدرصحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ان کواس سفرسے منع کیا تھا۔ عبداللہ بن عمرؓ،عبداللہ بن عباسؓ، عمروبن سعدبن العاصؓ،عبدالرحمن بن حارثؓ اورمکہ کے دوسرے بزرگوں نے شدت سے حضرت حسینؓ کومنع فرمایا بلکہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہاکہ آپ کوفہ جانے کی بجائے مکہ کی حکومت قبول فرمائیں،آپ ہاتھ بڑھائیں میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتاہوں۔عبداللہ بن جعفر بن ابی طالبؓ نے مدینہ سے خط لکھ کربااصرارمنع کیالیکن حضرت امام حسینؓ کی اولوالعزم طبیعت اس پرکسی طورراضی نہ ہوئی،حتی کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس آخری بات کوبھی ماننے سے انکارکردیا کہ عورتوں اوربچوں کومکہ میں چھوڑکرسفرکریں یاکم ازکم حج کے بعد روانہ ہوں جس میں صرف چنددن باقی ہیں۔ امام حسینؓ ذوالحج60ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبداللہ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصداحترام حضرت امام حسینؓ سے کہا: میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لیجائیں، وہ ضرورآپ کوقتل کر ڈالیں گے۔ لیکن حضرت امام حسین ؓ نے واضح الفاظ میں اپنے رفقا کوبتادیا تھا کہ ان کے پیش نظر “خلافت علی منہاج نبوت”کے احیاء کے سواکچھ نہیں۔اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جواہمیت ہے اس سے حضرت حسینؓ پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامر کے ادارہ کوجس اندازمیں رسول اکرمﷺاورخلفائے راشدین نے قائم فرمایا تھا،اس کے تحفظ اوردفاع کیلئے حضوراکرمﷺنے جو تاکیدفرمائی تھی وہ بھی حضرت حسینؓ کے علم میں تھی۔ (جاری ہے)