جی20- کااجلاس ناکام

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے G-20 کااجلاس ہرلحاظ سے ناکام ہوچکاہے‘ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اس اجلاس کے ذریعے دنیاکو یہ تاثر دیناچاہتاتھا کہ بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ عوام خوشحال ہیں۔ تجارت اور سیاحت میں اضافہ ہورہاہے۔ ہرجگہ امن کی فاختہ پروازکررہی ہے۔ لیکن جن ممالک کے نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کے دوران یہ مشاہدہ کیا ہے کہ صورتحال ایسی نہیں ہے جو بھارت کی حکومت اس اجلاس کے ذریعے تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے۔ خوف کا ماحول ہرجگہ محسوس کیاجارہاتھا چنانچہ میں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں ٹورازم سے متعلق ہونے والا اجلاس نہ صرف ناکام رہاہے‘ بلکہ اس سے وہ نتائج نہیں نکل سکے جس کی بھارت کی حکومت کوامید تھی۔ اس ضمن میں بعض بھارتی دانشوروں کایہ خیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں ٹورازم سے متعلق اجلاس منعقد کرکے خود اپنے آپ کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا ہے اور ذلت اوررسوائی کاسامنا کرنا پڑاہے۔دراصل بھارتی آئین کی شق 370 اور35اے کو کالعدم قرار دینے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ماضی میں ان شقوں کے ذریعے کسی حد تک مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق میسرتھے اور بھارتی تشدد کے خلاف آواز بھی اٹھ رہی تھی۔ لیکن اب بھارت کی9لاکھ سفاک فوج کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک بڑی جیل میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں ‘ یہاں تک کہ وہ کسی غیر ملکی نشریاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کرنے سے اجتناب برتتے ہیں کیونکہ اگر وہ سچ بولتے ہیں تو انہیں پس دیوار زندان کردیاجائے گا‘ جہاں ہندو پولیس ان کے ساتھ غیر معمولی تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس لئے بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں جی20-کااجلاس بری طرح ناکام ثابت ہواہے۔ بلکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جارہاہے وہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے۔اس سے یہ بات بلاتردید ثابت ہوگئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اب بھی اور آئندہ بھی ذہنی طور پر بھارت کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بھارت کے خلاف اپنی خاموش جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ویسے بھی سیاحت وہاں فروغ پاتی ہے جہاں امن قائم ہوتاہے‘ سیاح اپنی مرضی سے ہرجگہ گھوم پھرسکتے ہیں جیسا کہ یورپی ممالک ‘ برطانیہ ‘ امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی سیاح آزادی کے ساتھ وہاں گھوم سکتاہے؟ ہرگز نہیں ماسوائے ان علاقوں میںجہاں بھارتی پولیس اور فوج کا سخت پہرہ ہے۔ مزید برآں جب سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ’’حصہ‘‘ بنایاگیا ہے وہاں غیر کشمیریوں کو بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکر بسایاجارہاہے یعنی مقامی آبادی یعنی مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو کم سے کم کیاجارہاہے یعنی بڑے پیمانے پر (demographic change) کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ جس کو نہ تو اقوام متحدہ قبول کرے گا اور نہ ہی پاکستان کے عوام جو ہر سطح پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیںاور ان پربھارتی فوج کی جانب سے ہونے والے ظلم اوربربریت پر دنیا بھر میں احتجاج کرتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک اور مسئلہ زرعی شعبے کی تباہ کاری ہے‘ جہاں سیب کی فصل بالکل تباہ ہوگئی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر کے سیب اپنے ذائقے کی وجہ سے بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ لیکن اب یہ فصل بھی تباہ ہوچکی ہے۔ دوسری طرف خود بھارت کے ا ندر اقلیتوں مثلاً مسلمانوں‘ عیسائیوں اور دلتوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہاہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کا کوئی احترام نہیں ہے اور نہ ہی انہیں بھارتی آئین کے تحت وہ حقوق حاصل ہیں جو کسی جمہوری ملک میں اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کیاہے۔ اگر اقلیتوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک جاری رہا تو بہت جلد بھارت کے اندر علیحدگی کی تحریکیں بڑی شدت کے ساتھ شروع ہوسکتی ہیں۔ تاہم جی 20- میں چین‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ مصراور انڈونیشیا نے شرکت نہ کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام کاساتھ دیاہے اور اس طرح بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ظلم وتشدد کی پالیسیوں کی بلاواسطہ مذمت بھی کی ہے۔ بقول فیض احمد فیض مچل رہاہے رگِ زندگی میں خون بہار الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار چلوکے چل کے چراغاں کریں دیار حبیب ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار