90 روز میں انتخابات آئینی ضرورت ہے تو عملدرآمد کرانا ہمارا فرض ہے،چیف جسٹس

اسلام آباد ( اے بی این نیوز  )چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انتخابات کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں لیکن ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہمیں تو آئین کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر آئین کہتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات ہونے چاہییں تو عملدر آمد کرانا ہمارا فرض بنتا ہے۔’دستور پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق‘ کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئےچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس کو تنازع کہیں لیکن میں اس کو تنازع نہیں کہوں گا۔انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کے لیے موجودہ ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارا فیصلہ موجود ہے۔ سیاسی جماعتوں کو احساس ہے کہ آئین کی پاسداری کرنا ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ اللہ انصاف کے لیے جج کا انتخاب کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی فیصلہ چیلنج نہ کیا جائے تو یہ حتمی ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیڈرز، ادارے اور عوام آئین کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔جسٹس کارنیلئس ججز کے لیے مثال تھےچیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کار نیلئس ججز کے لیے ایک مثال تھے جنہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو 17 سال دیے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس 1960 سے 1968 تک چیف جسٹس رہے۔ وہ جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے۔ جسٹس کارنیلئس جوڈیشل سسٹم کے لیے طرہ امتیاز تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ججز نے انصاف کرنا ہے تو جسٹس کارنیلئس جیسے اوصاف ہونے چاہییں۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹس کارنیلئس وہ واحد جج تھے جنہوں نے 1955 میں گورنر جنرل کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ وہ اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مولوی تمیز الدین کیس میں اکثریتی ججز نے جو فیصلہ دیا وہ ملکی تاریخ میں جس طرح یاد رکھا جاتا ہے سب کو پتہ ہے، جسٹس کارنیلئس نے اکثریتی ججز سےاختلافی نوٹ دیتے ہوئے آئینی اسمبلی کی تحلیل کو کالعدم قرار دیا۔ جسٹس کارنیلئس ججز کے لیے مثال تھے۔انہوں نے کہا کہ 1964 میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تو جسٹس کارنیلئس نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور مولانا مودودی کیس میں یہ پابندی ہٹا دی گئی۔پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہےچیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور پاکستان میں ہر شہری کے بنیادی حقوق ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث کئی جانیں چلی گئیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کر سکتیں۔ بنیادی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے۔تقریب سے روانگی کے موقع پر صحافی نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ آپ کے خلاف بہت پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس پرچیف جسٹس عمر عطا بندیال مسکرائے اور ہونٹوں پرانگلی رکھ کرخاموش ہونے کا کہہ کرچل دیے۔