سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ،پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔
مزید پڑھیں: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ،پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل
تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں ایس آئی سی کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اپیلوں کی سماعت صرف لارجر بنچ ہی کر سکتا ہے تاہم عدالت نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔خواتین ارکان اسمبلی نے بھی بنچ پر اعتراض کیا۔بنچ پر مخصوص نشستوں کے لیے نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی اعتراض اٹھایا گیا۔

وکیل خواتین ایم این ایز نے عدالت کو بتایا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا کیس ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جب موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اپیل میں زیر سماعت ہے، موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کے تحت درج نہیں کیا گیا۔

جسٹس منصور نے یہ بھی کہا کہ ’اب اپیلوں کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، ایک بار قابلِ قبولیت کا فیصلہ ہو جائے گا تو لارجر بینچ بھی معاملے کو دیکھے گا‘۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے دلائل
اس کے ساتھ ہی ایس آئی سی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آزاد جیتنے والے ایم این اے نے ایس آئی سی میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا سات امیدوار اب بھی اس کا حصہ ہیں؟ قومی اسمبلی آزاد حیثیت میں

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے جس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ یہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آزاد ارکان کو کتنے دنوں میں پارٹی میں شامل ہونا ہے؟ جس پر وکیل فیصل نے جواب دیا کہ آزاد ارکان قومی اسمبلی کو تین دن میں سیاسی جماعت جوائن کرنا ہوگی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کا حق کھو دیں گے؟فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے ورنہ کوئی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی اور آزاد حیثیت سے جیتنے والے ارکان پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے؟ کیا سیاسی جماعت جیتی گئی نشستوں کی تعداد کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ لے سکتی ہے؟فیصل صدیقی نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
عوامی مینڈیٹ کی حفاظت

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت جیتی گئی نشستوں کی تعداد کے تناسب سے مخصوص نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ باقی نشستیں ایک ہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں عوامی مینڈیٹ کا تحفظ کرنا ہے، اصل مسئلہ یہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں الیکشن سے قبل یہ سوال لے کر عدالت گیا تھا، جس پر جسٹس اطہر نے جواب دیا کہ یقین ہے کہ پارٹی کی جتنی نشستیں ہوں گی انہیں مخصوص نشستیں ملیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دیا جائے۔جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے حکام کو ریکارڈ سمیت فوری طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔