سانحہ جڑانوالہ اور تحفظِ ناموسِ رسالت ؐ کا قانون

19 اگست کو جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں بعد نماز عصر ہفتہ وار درس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جڑانوالہ میں گزشتہ دنوں رونما ہونے والا سانحہ ان دنوں عوامی اور دینی حلقوں میں زیربحث ہے، اس کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں چند روز قبل یہ سانحہ ہوا ہے کہ قرآن مقدس کے اوراق پھاڑ کر ان پر توہین آمیز جملے لکھ کر باہر پھینکے گئے جنہیں دیکھ کر لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا جو معاملات کو بروقت کنٹرول نہ کیے جانے کے باعث بڑھتے بڑھتے مسیحی آبادی کے بہت سے مکانات حتیٰ کہ عبادت گاہوں کے جلا دیے جانے تک جا پہنچا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا دھواں آناً‘ فاناً ملک بھر میں پھیل گیا۔
دوستوں نے بتایا ہے کہ علاقہ کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد یونس رضوی نے، جن کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے، دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس کا بروقت نوٹس لیا اور موقع پر پہنچ کر حالات قابو کرنے کی سنجیدہ کوشش کی، ملزمان کی نشاندہی ہوئی، انہیں حراست میں لیا گیا اور پولیس سے رابطہ کر کے صورتحال کو سنبھالنے کی طرف توجہ دلائی گئی مگر انتظامیہ کے ذمہ دار افسران کی مبینہ بے پروائی کے باعث تین چار گھنٹے گومگو کے ماحول میں گزر گئے اور اتنی دیر میں اشتعال اپنا کام کر گیا جو دنیا بھر میں ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنا اور اس پر دنیا میں ہر سطح پر ردعمل کا مسلسل اظہار ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مسیحی خاندان کے جن دو لڑکوں کو توہینِ قرآن کریم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ان کے والدین اور خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اگر ان لڑکوں کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو وہ ان کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں جو سزا بھی دی جائے وہ اس کا ساتھ دیں گے مگر اس سے قبل پوری طرح تحقیق کر لی جائے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ لڑکے مجرم نہیں ہیں اور انہیں کسی سازش کے تحت اس میں پھنسایا گیا ہے جس کا واضح قرینہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے ان اوراق کے ساتھ ان لڑکوں کے فوٹو اور ان کے فون نمبر بھی پائے گئے ہیں جبکہ کوئی مجرم موقع واردات پر اپنی تصویر اور فون نمبر نہیں چھوڑا کرتا۔ بہرحال اتنی بات تو طے ہے کہ قرآن کریم کی توہین ہوئی ہے، جس نے بھی کی ہے اسے اس سنگین جرم کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر منصفانہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ جرم ان لڑکوں کا ہے تو وہ کسی نرمی کے مستحق نہیں ہیں اور انہیں قانون کے مطابق سزا دینا ضروری ہے ،لیکن اگر انہیں اس میں پھنسایا گیا ہے تو سازش کرنے والے بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں بلکہ پوری طرح سزا کے مستحق ہیں۔ البتہ یہ کام انتظامیہ اور عدلیہ کا ہے اور انہیں جلد از جلد اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی کسی کارروائی پر فوری اشتعال میں آنا اور سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ کر گزرنا ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بن گیا ہے اور ایسے متعدد واقعات ہمارے ہاں ہو چکے ہیں کہ فوری اشتعال کے تحت جذباتی ردعمل کا اظہار کیا گیا اور اس کے جانی و مالی نقصانات ملک و قوم کے ساتھ ساتھ دین کی بدنامی کا باعث بن گئے۔ جبکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ محض سنی سنائی باتوں پر ایسا کیا گیا جبکہ حقائق اس کے برعکس ظاہر ہوئے۔ گوجرانوالہ میں کچھ عرصہ قبل ایک حافظ قرآن کو ایسے ہی الزام میں سڑک پر گھسیٹ کر انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا اور الزام بعد میں غلط ثابت ہوا۔ یہ طرز عمل قرآن کریم کے اس ارشاد کے بھی منافی ہے کہ ’’فتبینوا ان تصیبوا قوما بجہالۃ فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ (الحجرات ۶) کوئی بھی ایسی خبر آنے پر تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں تم کسی قوم پر حملہ کر دو اور بعد میں خبر غلط ثابت ہونے پر خود تمہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس لیے ایسے کسی اشتعال میں مکانات اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا بھی کوئی کم سنگین جرم نہیں ہے، اور یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اشتعال کا پیدا ہونا تو فطری بات ہے مگر اشتعال پیدا کرنا اور اس کے دائرے کو پھیلانا فطری نہیں بلکہ مصنوعی عمل ہے جو منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہوتا اور یہ بھی سنگین جرم ہے جس کا سخت نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ چنانچہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرائی جائے اور توہین قرآن کریم کے سنگین جرم کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں اور مکانات کو نذر آتش کرنے کے جرم پر بھی مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے تحفظ کے قانون پر بحث جاری ہے جو قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں نے پاس کر دیا ہے مگر ابھی صدر محترم کے دستخط ہونا باقی ہیں جس کے بعد یہ قانون کا درجہ حاصل کر جائے گا۔ یہ قانون ملک میں پہلے سے موجود ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی بزرگ کی توہین جرم ہے جس پر تین سال قید کی سزا ایک عرصہ سے قانونی نظام کا حصہ چلی آ رہی ہے۔ نئے ترمیمی بل میں صرف سزا میں اضافہ کر کے اسے دس سال کیا گیا ہے مگر اس پر جس قدر شور و ہنگامہ بپا کیا جا رہا ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ سزا میں یہ اضافہ کوئی زیادتی کی بات نہیں ہے بلکہ مقدس شخصیات کی تعظیم کا تقاضہ ہے۔ مثلاً‌ پاکستان میں ایک عام شہری کی توہین بھی جرم ہے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی توہین بھی جرم ہے، لیکن یہ دونوں جرم برابر نہیں ہیں، عام شہری کی توہین کی سزا میں اور قائد اعظم مرحوم کی توہین کی سزا میں فرق ہے۔ اسی طرح عام شہریوں کی توہین اور حضرات انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی توہین کی سزا میں فرق بھی فطری تقاضہ ہے جس پر واویلا کرنے کا مطلب اصل سزا کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہے جو مسلّمہ چلی آ رہی ہے مگر اب اسے مشکوک کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم صدر محترم سے گزارش کریں گے کہ وہ اس معاملہ کو تاخیر میں نہ ڈالیں، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کی توہین پہلے سے قابلِ سزا جرم تسلیم شدہ ہے اور اس کی سزا میں اضافہ مقدس شخصیات کی تعظیم و توقیر کا تقاضہ ہے، اس لیے وہ اس بل پر فوری دستخط کر کے اسے قانونی شکل دیں۔ جبکہ ناقدین سے یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ اس بہانے بزرگ شخصیات کی توہین و تنقیص کو جرائم کی بجائے آزادئ رائے کے نام پر حقوق میں شامل کرنے سے گریز کریں۔ یہ موقف عالمی سطح پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو آزادئ رائے کے نام پر جواز فراہم کرنے والوں کا ہے جو نہ عالمی سطح پر قبول ہے اور نہ ہی اسے کسی درجہ میں ملک کے اندر قبول کیا جا سکتا ہے۔