اسلام میں اقلیتوں کے حقوق

ہم سب جانتے ہیںکہ اسلام دین رحمت ہے اوراس کی شفقت ورافعت کادائرہ کارکسی خاص قوم ،کسی مخصوص ملت یا گروہ کیلئے وقف نہیںہے بلکہ اسلام میں تمام بنی نوع انسانوں کیلئے خیر و عافیت کے بے پناہ خزائن موجودہیں۔اسلام میں تمام بنی نوع انسان کواللہ کا کنبہ قرادیاگیاہے اور اللہ نے اپنے کنبے کے ساتھ بلاتفریق نیکی وبھلائی کادرس دیاہے اوراللہ کے نزدیک سب سے بہترین انسان وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہترین سلوک روارکھے بلکہ یہاںتک فرمایا گیا ہے کہ اگرتم چاہتے ہوکہ رب کریم تمہارے ساتھ پیارکریں توتم اس کے کنبے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آؤ۔قرآن کریم میںتمام معاملات کوعدل وانصاف اوراحسان ومروّت سے طے کرنے کاحکم دیا گیاہے اورمسلم وغیرمسلم کی کوئی تخصیص نہیںہے اوریہ بھی فرمایاگیاکہ دوسروں کے ساتھ اس طرح بھلائی کروجس طرح اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کاسلوک فرماتے ہیں۔
اسلام میںجتنے بھی اخلاقی احکام ہیںوہ مذہب وملت کی تخصیص کے بغیرساری انسانیت کیلئے عام ہیںاوراس میںمسلم اورغیرمسلم سب شامل ہیں۔کسی ہندوسکھ عیسائی یاکسی بھی مذہب کیلئے کوئی تفریق نہیں۔اسلام میںغریبوںکی دستگیری اورمظلوموںکی دادرسی ،اخوت و رواداری اوردیگرتمام نیک کاموںکاجوحکم دیا گیا ہے وہ کسی ایک کیلئے مخصوص نہیںبلکہ اس میں اقلیتوںکابرابرکاحق ہے ۔ان احکامات میںاسلام نے اپنے ماننے والوںکی غیرمذاہب کے ماننے والوںکیلئے ایک بنیادی اصلاح کی ہے جس میںمسلم معاشرے میں اقلیتوںکے تحفظ کی تمام ترذمہ داری نہ صرف ریاست پربلکہ ہرمسلمان کواس پرعمل پیراہونے کاحکم دیاگیاہے۔اسلام کے پیغام سے پہلے تمام اہل مذاہب ایک دوسرے کو باطل اورکاذب قراردیتے تھے حتیٰ کہ یہودی اورعیسائی جوایک ہی درخت دین ابراہیمی کی دوشاخیںہیںایک دوسرے کوجھوٹاسمجھتے تھے اور ایک دوسرے کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے جنگ وجدل میںمصروف تھے۔ہندواپنے مذہب کے علاوہ دنیاکے کسی اور مذہب کومذہب ہی نہیںسمجھتے تھے اوریہی حال ایرانیوںکے احساسِ برتری کاتھالیکن سب سے پہلے صرف اسلام نے آکربنی نوع انسانیت کے اس نفرت اورفرق کوختم کیاکہ دنیاکی کوئی قوم اللہ کی رحمت سے محروم نہیںاوراس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس نے ہرقوم کی ہدائت و رہنمائی کیلئے ایک ہادی وپیغمبرمبعوث فرمایا۔ نبی کریم ﷺکے لائے ہوئے دین سے قبل تمام قدیم ادیان میںاس قدرتحریف ہوچکی تھی کہ ان کے اصل حقائق وتعلیمات کوبری طرح مسخ کر دیاگیاتھالیکن دین اسلام کی رحمت کااس بات سے اندازہ لگائیںکہ اس نے پہلے دن ہی اس بات اعلان کردیاکہ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔البقرہ (۲۵۶۔۲) ‘‘ بلکہ قرآن کریم نے توبحث مباحثے سے گریزاختیارکرتے ہوئے یہ حکم دیاہے کہ’’اے رسولِ معظم(آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی)ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو بھی(خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو(بھی) خوب جانتا ہے النحل (۱۲۵۔۱۶)۔اسلام میںتوغیرمذاہب کے معبودوںکوبھی برابھلاکہنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے کہ مبادانادانی میںغیر مذاہب کے ماننے والے جواب میںسچے رب کوبرابھلانہ کہیں حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شروع دن سے ان تمام مذاہب کے ماننے والوںنے باہمی اتحاد کرکے اسلام کوختم کرنے کیلئے محاذقائم کرلیا تھا لیکن اس کے باوجودمسلمانوںکوان کے درمیان بھی انصاف قائم کرنے کاحکم دیا’’کہ اللہ صرف انصاف کرنے والوںکواپنادوست سمجھتا ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں غیر مسلموںکوان کے حقوق سے کبھی بھی محروم نہیں کیا گیا۔ ایک دفعہ حبشہ کے حکمران شاہ نجاشی کلی طرف سے ایک وفدرسول اکرم ﷺکی خدمت میںحاضرہواتومہمان نوازی کے تمام فرائض خودرسول اکرمﷺ نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیئے ۔ صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت نے جب مہمان نوازی کے حقوق اداکرنے کی خواہش کا اظہارکیاتورسول اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھیوںکی خدمت کی تھی اس لئے میں خوداپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کروں گا۔ نبی اکرمﷺنے غیرمذاہب کے افراد کو توتمام مساجد کی سردارمسجد نبوی میںعبادت کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی۔ ایک دفعہ نجران کے عیسائیوںکاایک وفدرسول اکرمﷺ سے ملنے کیلئے حاضرہوا،عیسائیوںکی نمازکاجب وقت آن پہنچاتوانہوںنے مسجدنبوی میں نماز پڑھنا شروع کی تومسلمانوںنے انہوں نے روکنے کی جونہی کوشش کی تورسول اکرمﷺنے صحابہؓ کومنع فرماتے ہوئے عیسائیوںکونمازپڑھنے کی مکمل اجازت دی اورعیسائیوں نے اپنے عقائدکے مطابق رسول اکرمﷺ اورصحابہ کرامؓ کی ساری جماعت کے سامنے الٹی سمت کی طرف منہ کرکے اپنی نمازاداکی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے اصل دشمن مشرکین عرب تھے اورمسلمانوںکے خلاف تمام مذاہب کے ماننے والے قبائل نے ایک مشترکہ محاذقائم کرلیاتھااورمسلمانوںکو تکلیف و ایذا پہنچانے اوران کوختم کرنے کیلئے برسوںجنگ وجدل اورحملوںمیںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا مگرمسلمانوںکواپناوجودباقی رکھنے کیلئے جنگ کے دوران مقابلے کاحکم توضروردیالیکن دورانِ جنگ بھی کسی بے جا زیادتی وظلم کی اجازت نہیںدی حتیٰ کہ کھڑی فصلوں اور درختوں کو کاٹنے سے بھی منع فرما دیا گیا۔قرآن کریم میں بڑی صراحت کے ساتھ حکم دیاگیاکہ ’’جولوگ تم سے لڑیں ،تم بھی اللہ کی راہ میںان سے لڑولیکن کسی قسم کی کوئی زیادتی مت کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوںکو پسندنہیںکرتا‘‘۔جن لوگوںنے صلح حدیبیہ میںمسلمانوںکومسجداحرام جاننے سے زبردستی روک دیا تھا جبکہ تمام مسلمان احرام کی حالت میںتھے ،ان سے بھی زیادتی کرنے سے روک دیاگیا ۔قرآن کریم میںیہ حکم نازل ہوا کہ’’جن لوگوںنے تمہیںمسجداحرام جانے سے روکاتھاان کایہ عمل زیادتی کا سبب نہ بنے‘‘ ۔قرآن وحدیث میںکئی مواقع پرایسے اوربے شماراحکام موجود ہیں جس میں اسلام کی رواداری،اخوت اورمحبت کے بیش بہا دروس موجودہیں۔(جاری ہے)