چیف آف آرمی اسٹاف کی تقریر

13اور 14 اگست کی شب آرمی اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف عاصم منیر نے کہا کہ ’’پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان نہیں توکچھ بھی نہیں ہے‘ ‘ ان کے یہ الفاظ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کررہے ہیں۔نیزان کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ ’ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیاہے۔ یہ ملک شہدا کی امانت ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ پاکستان میں مایوسی پھیلارہے ہیں ‘ وہ دراصل ملک کو کمزور کرناچاہتے ہیں جس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ایک جامع نظریہ کانام ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ کی بنیاد پررکھی گئی ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر نے اس موقع پر بھارت کو واضح پیغام دیاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم کوبند کرے اور ان کے Right of self determinationکوتسلیم کرتے ہوئے ان کے حقوق کا احترام کرے۔ پاکستان سیاسی اخلاقی و سفارتی طو رپر کشمیری کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے افغانستان کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیںگے۔ دوحہ معاہدے میں یہی فیصلہ ہواتھا کہ طالبان کی حکومت اپنے ملک کی سرزمین کوکسی بھی ملک کے خلاف (دہشت گردی کے لئے) استعمال نہیں کرنے دیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی استعمال کے لئے ہورہی ہے‘ جس کو روکناطالبان کی حکومت کی ذمہ داری ہے‘ طالبان کی حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان نے افغانستان کی بقاء اورعوام کی خوشحالی کے ضمن میں جو تعاون کیاہے ‘ اس کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہے۔ اس وقت میں لاکھوں افغانی پاکستان کی مہمان نوازی سے استفادہ کررہے ہیں۔ پاکستان کی اس مہمان نوازی کااعتراف کرنا اصل میں احسان کابدلہ احسان میں مضمر ہے۔

چنانچہ آرمی چیف نے اپنی تقریر میں جوکچھ بھی کہاہے کہ اس سے ظاہرہوتاہے کہ انہیں پاکستان کے موجودہ حالات کے علاوہ آئندہ حالات کا بھی خاصہ ادراک ہے۔مزیدبرآں ان کی اس سوچ سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ افواج پاکستان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی مذموم سرگرمیاں نیست ونابود کرنے کاحوصلہ رکھتی ہے اور یہ عناصر پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ان کی اس تقریرکا پاکستانی معاشرے پر مثبت اثرت مرتب ہوئے ہیں ‘ کیونکہ موجودہ ماحول میںجب کہ عوام معاشی طور پر انتہائی پریشان ہیں‘ انہیں اس تقریر میں امید کی کرن نظر آئی ہے۔ جوان کے لئے آئندہ تبدیلی کاباعث بن سکتی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کو عوام کے مختلف طبقات کے درمیان اتحادکی اشد ضرورت ہے جس کا متعدد بار بانی پاکستان قائدعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی تقریروں میں ذکر کیاہے۔اتحاد ہی کے ذریعے پاکستان میں سیاسی ومعاشی استحکام پیداہوسکتاہے اور ترقی خوشحالی کے نئے دور کاآغاز ہوسکتا ہے۔ جس کی ہم سب کوخواہش ہے۔ تاہم یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ اگر ہم نے نظریے پاکستان کوفراموش کردیا جس کاقائداعظم محمد علی جناح ؒنے بار بار ذکرکیاہے۔ تواس صورت میں ہم پاکستان کو نہ تومضبوط بناسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کو و ہ خوشحالی مل سکتی ہے جس کا وہ ایک عرصہ دراز سے انتظارکررہے ہیں۔ عاصم منیر کی اس تقریر سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ومعاشی حالات کو ہم سب نے مل کر ٹھیک کرناہوگا۔ تنہا کوئی فرد یا جماعت موجودہ حالات کوٹھیک نہیں کرسکتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی موجودہ بگاڑکی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔جبکہ ہم نے آزادی کے ثمرات سے پورا پورا فائد ہ نہیں اٹھایابلکہ تن آسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنے مفاد کے لئے تگ ودو کی ہے۔اس لئے موجودہ حالات کا یہ تقاضاہے کہ ہم اس پاکستان کو تلاش کرناچاہیے جس کا تصورنہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پیش کرکے پاکستان کا حصول ممکن بنایاتھا۔ اگر ہم قائداعظمؒ کے پاکستان کوتلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے ارشادات کے مطابق پاکستان کو چلانے کی کوشش کی تو ہم پاکستان کوعوام اور فوج کے تعاون سے ناقابل تسخیر بناسکتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔