تم لوگ منافق ہو

(گزشتہ سے پیوستہ) میناکشی احمدنے اپنے مضمون میں مزیدلکھاکہ اپریل1977ء میں اس وقت کے صدرجمی کارٹرنے پرنسٹن یونیورسٹی کے صدررابرٹ گوہین کوانڈیاکا سفیرمقرر کیا۔رابرٹ گوہین انڈیامیں پیداہوئے۔ اندراگاندھی نے جون1975سے مارچ1977ء تک انڈیامیں ایمرجنسی نافذکی۔آئین کے تمام حقوق واپس لے لیے گئے اوراپوزیشن رہنماؤں کوجیلوں میں ڈال دیاگیا۔ میڈیا بھی خاموش ہوگیا۔
ایک سفیراس ملک کی ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں پربھی نظررکھتا ہے۔امریکی سفیرکی عدم موجودگی نئی دہلی حکومت کوبھی پسندآئی ہوگی۔نئی دہلی نے اپنی گھریلوسیاست میں بہت سی چیزوں سے لاتعلق رہناآسان سمجھاہوگا۔ہندوستان ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق ایرک گارسیٹی کئی بارانڈیا آ چکے ہیں اورانہوں نے ہندی اوراردوکامطالعہ بھی کیاہے۔انہوں نے ریپبلکن رکن پارلیمنٹ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کوبھی مستردکردیا ہے۔ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیوروف نے کہاہے کہ انڈیانہ صرف قدرتی طورپرکثیرالقطبی دنیا(ملٹی پولرورلڈ) کاایک اہم ملک بننے کی صلاحیت رکھتاہے بلکہ یہ کثیر القطبی دنیابنانے میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل لیوروف نے حال ہی میں یوکرین کے خلاف جنگ پرانڈیاکے موقف کومتوازن قراردیاتھا اورانڈین خارجہ پالیسی کی تعریف کی تھی۔اب انہوں نے پریماکوف ریڈنگز انٹرنیشنل فورم میں انڈیاکی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے اوراسے کثیرالقطبی عالمی دنیامیں ایک دعویدارقراردیاہے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہاکہ مغربی ممالک تسلط کے عالمی نظام کوترک نہیں کرنا چاہتے۔وہ کثیرالقطبی نظام(ملٹی پولرورلڈآرڈر) کی حقیقت کو قبول نہیں کرناچاہتے۔ یہ واضح ہے کہ نئی قوتیں امریکہ کی قیادت میں ورلڈآرڈرکوقبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں لیکن مغربی ممالک زبردستی اس نظام کوبرقراررکھناچاہتے ہیں۔وہ پانچ دہائیوں سے چلی آ رہی اس عادت کوچھوڑنے کوتیارنہیں۔لیوروف نے جرمنی اور جاپان کے مقابلے انڈیااوربرازیل کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کامستقل رکن بنانے پراصرارکیا۔ سرگئی لیوروف نے کہاکہ دونوں ممالک کثیر القطبی عالمی نظام کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ پریماکوف ایک روسی سیاستدان اورسفارت کارتھا۔ وہ1998ء سے1999ء تک روس کے وزیراعظم رہے۔ اس سے پہلے وہ روس کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ 1996میں بطوروزیرخارجہ انہوں نے روسی حکومت کے سامنے روس،انڈیااورچین کے اتحاد پر مبنی کثیر القطبی عالمی نظام کی وکالت کی تھی۔ اس نظام کودوسری عالمی جنگ کے بعدامریکہ کی طرف سے مسلط کردہ سنگل پولرورلڈآرڈرکامتبادل قراردیاگیا۔انہوں نے کہاکہ روس کواپنی امریکہ پر مرکوز خارجہ پالیسی کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے روس کومشورہ دیاکہ وہ انڈیااور چین کے ساتھ اپنی دوستی اورتعلقات کومضبوط کرے کہ ملٹی پولرورلڈآرڈر میں،روس، چین اورانڈیاکااتحادان ممالک کوکچھ حدتک تحفظ فراہم کرسکے گاجومغرب کی پیروی کرنے کی بجائے اپناخودمختارراستہ اپناناچاہتے ہیں۔اپنی تقریرمیں ملٹی پولرآرڈرکاذکرکرتے ہوئے،لیوروف نے ایک بارپھر روس،انڈیا اورچین کے اس اتحادپر زوردیا۔ انہوں نے کہاکہ ’’پریماکوف کاروس، انڈیااورچین کے اتحادکا خیال بعدمیں برکس میں تبدیل ہوگیا۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آرآئی سی اب بھی چل رہا ہے۔اس اتحادکی بنیادپرتینوں ممالک کے وزرائے خارجہ باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔لیوروف بطورروسی وزیرخارجہ پریما کوف کے ملٹی پولر ورلڈ آرڈرکے نظریہ کواچھی طرح سمجھتے ہیں اوروہ اس وقت اس نظام میں انڈیاکااہم کرداردیکھ رہے ہیں، مگراس کی کیاوجہ ہے؟ وہ جرمنی اور جاپان کے بجائے انڈیااور برازیل کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کامستقل رکن بنانے پرکیوں اصرارکر رہے ہیں؟وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ انڈیاایک بڑی معاشی طاقت بن رہاہے اورمستقبل میں یہ دنیاکی سب سے بڑی معیشت بن سکتاہے؟کیوں وہ ہرقسم کے مسائل کے حل میں انڈیاکے وسیع سفارتی تجربے کاحوالہ دے رہے ہیں اورایشیامیں اس کے قائدانہ کردارکی طرف توجہ مبذول کروارہے ہیں؟ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لئے جواہرلعل نہرویونیورسٹی میں روس اورسینٹرل ایشین سٹڈیزکے پروفیسر سنجے کمار کا کہناہے کہ تھاکہ’’لیوروف‘‘ کے اس بیان کے سیاق وسباق کوسمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑاپیچھے جاناہوگا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب روس نے انڈین خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہو۔ 1955-56ء اور1971ء کے معاہدوں کے بعدسے سوویت یونین انڈیاکو انتہائی اہم ممالک کی فہرست میں رکھتاہے۔ان کاکہناتھا کہ’’جب غیروابستہ ممالک کی پالیسی تشکیل دی گئی تھی تب بھی سوویت یونین نے اسے تسلیم کیا تھا اوراس کاخیال تھا کہ ان غیروابستہ ممالک کی ایک آزادخارجہ پالیسی ہے اورسوویت یونین کوان کے ساتھ تعلقات بہترکرنے چاہیے‘‘ پروفیسرسنجے کمارکہتے ہیں کہ’’سوویت یونین‘‘ (روس اس یونین کاحصہ تھا)غیروابستہ ممالک میں بھی انڈیاکے ساتھ تعلقات کوبہتر بنانے پرزور دیتا رہا۔ سوویت یونین نے لیونڈالیچ کے دورمیں انڈیا کیساتھ اہم معاہدے کیے تھے۔ گوکہ90کی دہائی میں روس کامغربی ممالک کی طرف جھکاؤ تھا لیکن1996ء میں پریماکوف نے روس، انڈیا اور چین کے تین ملکی اتحاد آرآئی سی کے بارے میں زورشور سے بات کی۔ پریما کوف روس کی آزاداور خودمختارخارجہ پالیسی کے حق میں تھے۔ ایسی خارجہ پالیسی جس کامحوریوریشیاہے۔ لیکن انڈیا اور چین کیساتھ بھی خصوصی تعلقات استوارکرنے پر زور دیا گیاتھا۔اب ایک بارپھر روس انڈیااورچین کے اتحاداورملٹی پولر ورلڈ آرڈرکی بات کیوں کی جارہی ہے؟ لیوروف انڈیاکواس نظام کامحورکیوں سمجھتے ہیں؟ سنجے کمارپانڈے کہتے ہیں کہ جب روس نے 2014ء میں پہلی بارکریمیا پرحملہ کیاتوانڈیانے نہ تواس کی حمایت کی اورنہ ہی اس کی مذمت کی کیونکہ کریمیا میں روس کے کچھ جائز سکیورٹی خدشات اورمفادات ہوسکتے ہیں۔کریمیااوراب یوکرین کے حملے تک روس نے دیکھاکہ انڈیاکی پالیسی ہمیشہ مغربی ممالک سے مختلف رہی ہے۔ان کاکہنا ہے کہ’’ــ انڈیا نے روس کاساتھ نہیں دیالیکن مغربی ممالک کی زبان اوراس کی پابندیوں کودیکھتے ہوئے یہ بھی کہاکہ یہ معاملہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔مودی نے روسی صدر کے ساتھ اپنی بات چیت میں واضح طورپرکہاکہ یہ جنگ کاوقت نہیں ہے لیکن انڈیانے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف مغربی ممالک کی مذمتی تجاویزکی بھی حمایت نہیں کی۔ پروفیسرسنجے کے مطابق’’اس سے روس پرواضح ہوگیاکہ مغربی ممالک کے برعکس انڈیاان معاملات میں اپنی آزادخارجہ پالیسی پرعمل پیراہے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ روس انڈیاکوملٹی پولر ورلڈ آرڈرمیں محورکے طورپر دیکھ رہا ہے۔ کہاجارہاہے کہ2014ء سے انڈیاکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اوروہ زیادہ آزاد نظر آ رہی ہے؟خارجہ اورسلامتی کے امورپر رپورٹنگ کرنے والی معروف انڈین صحافی نیانیماباسو اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں کہ ’’انڈیانے شروع سے ہی ایک آزاد خارجہ پالیسی پرعمل کرنے کی کوشش کی ہے۔پہلے اس پالیسی کونان الائنمنٹ کہاجاتا تھا اور اب یہ سٹریٹجک خودمختاری کی پالیسی میں تبدیل ہو گئی ہے جبکہ حالیہ دنوں میں اس میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔مودی حکومت کے دورمیں انڈیاکاامریکہ کی جانب واضح جھکاؤدیکھاگیاہے تاہم، قوانین پرمبنی عالمی نظام کی وکالت کااس کامؤقف برقرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاانڈیا 2014ء سے ایک آزاد بیرونی ملک کوپروان چڑھانے میں کامیاب رہاہے یااسے بڑھا چڑھاکرپیش کیاجارہاہے۔ (جاری ہے )