اس دل کو تسلی کون دے ؟

دبئی میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور پی پی پی رہنمائوں کے درمیاں مذاکرات ہورہے ہیں ، پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف دھڑکتے دل اور
دبئی میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور پی پی پی رہنمائوں کے درمیاں مذاکرات ہورہے ہیں ، پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف دھڑکتے دل اور کانپتی ٹانگوں سے یہ عندیہ دیتے ہیں کہ انتخابات وقت سے پہلے ہونگے۔یہ انتخاب کون کروائے گا کس کے ہاتھ میں باگ دیں گے اس منہ زور گھوڑے کی جس کے ہنہنانے کی آوازیں فقط اس بے اختیار حکومت ہی نہیں پوری پی ڈی ایم کو خوفزدہ کئے ہوئے ہیں ۔
جس ملک کی اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہو اس ملک کے سیاستدانوں کے پائوں کے نیچے ریت ہوتی ہے وہ بھی ایسی کہ جس پر سے پائوں پھسلتے دیر نہیں لگتی ۔میاں نواز شریف اور ان کی ہونہار بیٹی وسوسوں اور مخمصوں کے بیچ زرداری اور بلاول زرداری کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مولانا زہر کے گھونٹ پی رہے ہیں کہ ان کی سیاسی بصیرت سے استفادہ نہیں کیا جارہا اور اس میں شک بھی نہیں کہ سیاسی بصیرت کے حوالے سے زرداری کے بعد مولانا کا نام آتا ہے اور وہ پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں اور ان کا ایک نابغہ روز بیٹا بھی پی ڈی ایم حکومت میں وفاقی وزیر کے منصب پر فائر ہے جو ظاہر ہے مولانا کی گود میں پلا ہے توسیاسی شعور کے اعتبار سے بھی اتنا ہی بالغ نظر ہوگا ۔یوں بھی یہ میاں نواز شریف اور زرداری کی صریحا violation ہے کہ وہ بالابالا مذاکرات کررہے ہیں کسی اور سے مشورہ تک لینا گوارہ نہیں کر رہے ۔حیف ہے۔
یہاں وزیر اعظم شہباز شریف، ان کا چہیتاچیف الیکشن کمشنر ،آئی جی پنجاب پولیس کیا کیا منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں ،حمزہ شہباز کھلی آنکھوں وزیر اعلی پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اس کے باوجود کہ ان کی کزن محترمہ مریم نواز اپنے پاپا کو وزیر اعظم پاکستان اور خود کو کم از کم وزیر اعلی پنجاب محسوس کرتی ہیں،یہ اتنے سارے خوابوں کی کرچیاں کون چنے گا ۔
برسبیل تذکرہ گزشتہ کالم میں مولانا کے خوابوں کا ذکر کیا تھا ، اس لئیمغلظات کی زد میں ہوں اب مسلم لیگ ن کے احباب کس سلوک کا روادار گردانتے ہیں یہ بعد میں معلوم ہوگا(گو دل اور دھیان میں سب کے رویئے پیشگی محسوس کررہاہوں) ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے برادر محترم نواز شریف الگ الگ پچ پر کھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ،ان کی آپس میں نیتوں کا مطلب وہ دونوں جانتے ہیں یا وہ جو مستقبل کے زائچے تیار کررہے ہیں۔ان سب کے بیچ پی ٹی آئی یوں پھنسی ہوئی ہے جیسے گلے میں ہڈی ۔دراصل ہڈی کو اٹکانے والے خود ان اندیشوں میں دھنسے ہوئے ہیں کہ ان سے یہ کیا ہوا اور اس درد کی دوا کیا ہے ؟
انہوں نے اپنی بساط بچھا رکھی ہے بلکہ سجارکھی ہے پیادوں کی تلاش میں سر پٹھول میں ہیں کہ کون کس چال کے لئے فٹ ہوگا آخر ان کے اندر بھی تو گوشت پوست کا لوتھڑا ہے کوئی پتھر تو نہیں یہ وصف تو ہمارے خطے کی سیاست کا ہے جس کے بارے بڑوں کا قول ہے کہ ” ہماری سیاست کے سینے میں پتھر کا دل ہے ” اب تو بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے سینے میں بھی پتھر ہے وہ پتھر کہ جس نے عوام کے لئے ان کے احساس مروت کو کچل دیا ہے ۔مہنگائی ،بیروزگاری اور اس پر مستزاد یوٹیلیٹی بلز عذاب بن چکے ہیں جنہوں نے متوسط طبقے کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے وزیروں ،مشیروں اور نوکر شاہی پر مراعات کے دروازے کھول دیئے ہیں کھائو ،پیو عیش اڑائو ، اسمبلیوں کے ممبران کو بجلی ، فون اور دیگر سہولیات مفت ،پنجاب میں پولیس کے تمام انسپکٹروں کو الیکشن سے پہلے نئے ڈالے مہیا کر دیئے گئے ہیں ،بے بہا فیول مفت ،پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا پر روٹی ،سالن اور چاول کی پلیٹ اونے پونے کہ غربت کی چکی نے ان کی جان لی ہوئی اور عوام کا نان نفقہ تو کیا ناطقہ تک بند ۔یہ ہے پی ڈی ایم کی حکومت کی کار کردگی جس پر سب نازاں ہیں ۔ جہاں تک عمران خان کے بیانئے کا تعلق ہے وہ ہمارے عدالتی ڈھانچہ کی طرح نامستحکم ہوچکا اور اب گوبر کی پاتھیاں تھاپنے والے لفظوں کے ایک بیوپاری نے جو اسلام آباد پہنچ کر کروڑ بلکہ ارب پتی ہوچکا ہے اس نے اس بیانیئے کو مسخ کرنے کے لئے اپنا ایک بیانیہ گھڑا ہے جس میں بتایا گیاہے کہ’’زمان پارک میں موجود ہر تیسرا شخص جاسوس تھا جو زمان پارک کی ہر خبر حکومت کوپہنچاتا تھا اور کپتان کو ہلہ شیری دیتاتھا‘‘۔
یہ سب باتیں ایک طرف اور یہ امر ایک طرف کہ ہر طرف سے محفوظ ہونے والی حکومت کو دل کی تسلی کون دے کہ وہ الیکشن کروانے نہ کروانے کے تذبذب سے نکلے اورکوئی ایک فیصلہ کرلے کہ الیکشن اس سال کروانے ہیں یا ابھی وہ یہ خطرہ مول لینے کے لئے خودکو تیار نہیں پاتی !!!