شرم پروف کرپشن اورپاکستان

5اکتوبر2007ء کی شام کوشمارلی کوریا کے شہر ’’سن شی آن‘‘کے وسیع سٹیڈیم میں ایک حیرت انگیزواقعہ پیش آیا،جہاں ڈیڑھ لاکھ لوگ دم سادھ کربیٹھے
5اکتوبر2007ء کی شام کوشمارلی کوریا کے شہر ’’سن شی آن‘‘کے وسیع سٹیڈیم میں ایک حیرت انگیزواقعہ پیش آیا،جہاں ڈیڑھ لاکھ لوگ دم سادھ کربیٹھے تھے،سٹیڈیم میں پن ڈراپ خاموشی تھی اورسٹیڈیم کے درمیان ایک عارضی سٹیج پرپھانسی گھاٹ بنا تھا۔شام کے چاربجے سٹیڈیم کاگیٹ کھلااورپچیس پولیس اہلکارسٹیڈیم میں داخل ہوئے،وہ ایک خستہ حال بوڑھے کوبازوں سے گھسیٹ رہے تھے،اوراس راستے پربوڑھے کی ایڑیوں کی ایک لمبی لکیراسے موت کے تختہ کی طرف لے جارہی تھی۔پولیس اہلکاربوڑھے کو سٹیج پر لائے، اسے سہارادے کرکھڑاکیااوراس کا رخ تماشائیوں کی طرف کردیا،بوڑھے کی الجھی داڑھی،پریشان بال،آنکھوں کی گہری اداسی اورچہرے کے دکھ نے اس کے جسم پرلرزہ طاری کررکھاتھا۔پولیس کے ایک سینئرافسرنے ہاتھ بڑھاکراس بوڑھے کی جیب سے کاغذنکالا، بوڑھے کے جرائم باآوازبلندپڑھے اوراس کے بعداعلان کیا ’’شمالی کوریاکی معزز عدالت کے حکم پر75 سالہ مسٹرکوسرے عام پھانسی دے رہے ہیں‘‘۔
اس نے کاغذتہہ کیا،اپنی جیب میں ڈالا، سٹیج سے اترااوراہلکاروں کوکاروائی مکمل کرنے کا اشارہ دے دیا۔پولیس اہلکاروں نے نیم مردہ بوڑھے کے گلے میں رسہ باندھ دیا،سٹیڈیم میں سیٹی کی آوازگونجی،اہلکارنے لیورکھینچا،بوڑھارسے پر 12سیکنڈ تڑپا اورٹھنڈاہوگیا۔پھانسی کاعمل جوں ہی مکمل ہواسٹیڈیم میں بھگدڑمچ گئی،لوگ خوف کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے،بھگدڑپرقابو پانے کی کوشش میں ہجوم 6لوگوں کو کچلتا اور 34افرادکوشدیدزخمی کرکے شہرکی گلیوں میں گم ہوگیااوراگلے کئی دن شہرمیں موت جیسا سکوت طاری رہا۔
آخراس بوڑھے کوکس جرم میں یہ سنگین سزا ملی،یہ انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔75سالہ بوڑھا شمالی کوریاکے دارالحکومت پیانگ یانگ کی فیکٹری میں بطورمینجرکام کرتاتھا۔حکومتی اداروں کواس پربدعنوانی کاشک گزرا،ان اداروں نے اس کی نگرانی شروع کرادی،وہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، مقدمہ عدالت میں پہنچا،اورجرم ثابت ہونے پرعدالت نے ملزم کو سر عام پھانسی کا حکم دے دیا۔ عدالت کے اس حکم پر بالآخر 5اکتوبر کولاکھوں افرادکی موجودگی میں عملدرآمدہوگیا۔ 75سالہ بوڑھے فیکٹری منیجر پر کرپشن کے چار’’سنگین‘‘ الزامات تھے۔اول فیکٹری منیجر نے فیکٹری میں چندہزاروپے کی غیر قانونی سرمایہ کاری کی تھی،دوم اس نے اپنے نااہل بچوں کوفیکٹری کے انتظامی عہدوں پربھرتی کرایا تھا،سوم اس نے پوشیدہ ٹیلی فون لگوا رکھا تھا اوراس فون سے 12لوکل اور3 بین الاقوامی کالزہوئی تھیں اور چہارم فیکٹری منیجرنے کمیونسٹ پارٹی کے بعض عہدیداروں کوتحائف دئیے تھے۔ یہ چاروں جرائم ثابت ہوگئے تھے،چنانچہ حکومت نے تحائف لینے والے تمام عہدیداروں کومختلف طویل سزائیں سناکرمعطل کردیاجبکہ بوڑھے کو’’سن شی آن‘‘ کے سٹیڈیم میں ڈیڑھ لاکھ شہریوں کے سامنے پھانسی پرلٹکادیااورنعش دودن تک سٹیڈیم میں لٹکتی رہی۔
میں نے جب بوڑھے کی کرپشن کاوالیم دیکھا اوراس کرپشن کے بدلے میں ملنے والی سزا کی سنگینی کااندازہ لگایاتومجھے بوڑھے مینیجرکی بدقسمتی پرہنسی آگئی اورمجھے شدت سے محسوس ہوا کہ قدرت نے اسے کرپشن کی بجائے غلط ملک میں پیدا ہونے کی سزا دی تھی،اگریہ بے چارہ بوڑھا ارض مقدس اسلامی جمہوریہ پاکستان کاشہری ہوتاتویہ کبھی کرپشن کے جرم میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے سامنے بے بسی کی موت نہ ماراجاتاکہ یہاں تونئے قانون سازی کے تحت10کروڑسے کم کی کرپشن کونیب بھی ہاتھ نہیں لگاسکتی۔
میں جس دن کوریاکے اس بوڑھے کرپٹ فیکٹری مینیجرکی داستان پڑھ رہاتھاتومجھے مشرف کے دورحکومت میں ارض پاکستان کی خفیہ سرکاری رپورٹ کے وہ انکشافات یادآگئے جس میں یہ تسلیم کیاگیاکہ وفاقی حکومت نے صرف پچھلے پانچ برسوں میں 5ہزار4سو14بینک نادہندگان کے73ارب 22کروڑاور94لاکھ روپے کے قرضے معاف کئے،اور حکومت کی اس فیاضی سے لطف اندوزہونے والوں میں دووزرا اعلیٰ، ملک کے درجنوں نامورسیاستدان،اعلیٰ سول عہدیدار،عسکری کاروباری ادارے اورایک غیر ملکی ٹرانسپورٹ کمپنی شامل تھی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایک وزیراعلیٰ نے اپنی شوگر ملوں، دوسرے وزیراعلیٰ نے اپنی گھی مل اوربے شمارسیاستدانوں نے2002ء میں ق لیگ کو حکومت بنانے میں مدددینے کے عوض اپنے قرضے معاف کرائے تھے۔ قرضے معاف کرانے کی یہ سکیم صدرپاکستان کی مالیاتی ٹیم نے 2002ء کے الیکشنوں کے فوری بعدلانچ کی تھی اور اس سکیم کے بانی اس وقت کے وزیرخزانہ اوربعدازاں وزیراعظم جناب شوکت عزیزتھے۔صدرکی مالیاتی ٹیم نے اس نیک کام کیلئے تین درجے طے کئے تھے، پہلے درجے میں5 لاکھ روپے تک کے نادہندگان تھے،دوسرے درجے میں5لاکھ سے 25لاکھ تک کے نادہندگان تھے جبکہ تیسرے درجے میں25لاکھ روپے سے زائد کے تمام قرض نادہندگان شامل تھے۔حکومت نے اس سکیم کے تحت ان تمام سیاستدانوں کے قرضے معاف کرنا شروع کردئیے جونئی حکومت کی تشکیل کیلئے اپنی پرانی وفاداریاں اورپارٹیاں تبدیل کررہے تھے۔ یہ عمل2007ء تک جاری رہااوراس کے نتیجے میں معاف کئے گئے قرضوں کاوالیم ساڑھے 73ارب روپے سے زائدہوگیاتھا۔ اگرہم اس کرپشن کوشمالی کوریاکے اس بوڑھے مینیجرکی کرپشن کے سامنے رکھیں تویہ بوڑھااوراس کی حقیرکرپشن شرمندگی سے دم توڑ جائے گی لیکن آپ ہماراکمال دیکھئے،شمالی کوریانے اس مسکین بوڑھے کوچندہزارروپے کی کرپشن کے جرم میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے سامنے پھانسی پرلٹکادیاتھاجبکہ ہمارے ملک میں اب بھی قرضے ہڑپ کرنے والے لوگ معززترین عہدوں پرفائزہیں،یہ محب وطن بھی کہلاتے ہیں اوراپنی شاندارکارکردگی کے عوض اگلے پانچ سال کیلئے وزیر اعظم،وزیراعلی اور وزرامنتخب ہونے کے منصوبے بھی بنارہے ہیں۔
آپ ایک لمحے کیلئے73 ارب سے زائد کو بھی بھول جائیے اورآپ محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کودیکھئے،ان دونوں پر1996 میں کرپشن کے الزامات لگے تھے، کروڑوں روپے کی لاگت کے بعدان کی کرپشن کے ثبوت جمع کرنے کیلئے نیب میں ایک ونگ بنایا گیا تھا۔اس ونگ نے غیرملکی کمپنیوں اوراداروں کوکروڑوں روپے فیس اداکی تھی۔
(جاری ہے)