اتحادِ امت کیلئے اکابر اصحابِؓ رسولؐ کا اسوہ

۲۳ جولائی ۲۰۲۳ء اتوار کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں بعد نماز عصر ہفتہ وار درس قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تین بزرگوں کا ایک مشترکہ ذوق ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ تینوں بزرگ بڑے ہیں، تینوں کا ذوق بھی بڑا ہے اور مشترک ذوق ہے۔ جب باغیوں نے امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا اور مسجد نبویؐ پر قبضہ کر لیا۔ یہ دارالحکومت تھا، فوج بھی تھی، سارے محکمے موجود تھے۔ حضرت عثمانؓ سے تقاضا کیا گیا کہ سب کچھ آپ کے پاس ہے آپ کاروائی کریں، تو حضرت عثمانؓ نے انکار کر دیا۔ متعدد صحابہؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت! فوج اور سب کچھ آپ کے پاس ہے۔ باغی چند سو آدمی ہیں جو غنڈہ گردی کر کے قبضہ کیے ہوئے ہیں، آپ ایکشن لیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا نہیں! میں کسی کلمہ گو کا خون اپنے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہتا، باغی ہیں لیکن کلمہ تو پڑھتے ہیں۔

سوال ہوا کہ اگر آپ آپریشن نہیں کرتے تو پھر خلافت چھوڑ دیں۔ جبکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے بارے میں دو پیشین گوئیاں فرما رکھی تھیں۔ ایک یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی بشارت قبول کرو لیکن تم پر آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی۔ اور دوسری یہ بات ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک کرتہ پہنائیں گے، لوگ اسے اتارنے اور چھیننے کی کوشش کریں گے، آپ نے اسے اتارنا نہیں ہے۔ اس لیے حضرت عثمانؓ نے فرمایا میں ایکشن بھی نہیں لوں گا اور کرتہ بھی نہیں اتاروں گا۔ چنانچہ شہید ہو گئے لیکن یہ گوارا نہیں کیا کہ کسی مسلمان کا خون ان کے سبب سے ہو۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ شہید ہوئے تو اس وقت دو حکومتیں تھیں۔ دمشق میں حضرت معاویہؓ کی اور کوفہ میں حضرت علیؓ کی حکومت تھی۔ انہوں نے آپس میں جنگ سے گریز کیا جس سے امن کا ماحول بنا ہوا تھا۔ جب حضرت علیؓ شہید ہوئے تو مسئلہ پیدا ہو گیا۔ کوفہ میں اہل شورٰی نے حضرت حسنؓ کو خلیفہ منتخب کر لیا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ کو، جو دمشق میں امیر المومنین تھے، رپورٹ ملی کہ کوفہ میں جنگ کی اچھی خاصی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ وہ لشکر دمشق میں آئے گا، اور لشکر بھی چھوٹا نہیں ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق اتنا بڑا لشکر تھا کہ لشکروں کی ایک لمبی قطار چلی آ رہی تھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ ہم تو حملہ نہیں کر رہے، اگر وہ حملہ آور ہوں گے تو ہم ان سے مقابلہ کریں گے۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا خدا کے بندے! لڑو گے تو دونوں طرف سے مسلمان شہید ہوں گے، عورتیں بیوہ ہوں گی، بچے یتیم ہوں گے، ان کو کون سنبھالے گا؟ لہٰذا ہم ان سے نہیں لڑیں گے۔ کسی نے کہا حضرت! وہ تو آ رہے ہیں، پھر کیا کرنا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا مجھے موقع دو، میں حضرت حسنؓ کے پاس وفد بھیجتا ہوں، صلح کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس صلح کی پیشکش میں پہل حضرت معاویہؓ نے کی۔ یہ کہہ کر حضرت عبد اللہ بن عامرؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ پر مشتمل وفد بھیجا کہ لڑنا دونوں کے حق میں ٹھیک نہیں ہے لہٰذا کوئی درمیان کی بات کرنا، اور حضرت حسنؓ صلح کی جو شرطیں کہیں مان لینا، مجھ سے دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے، تم میری طرف سے خود مختار ہو، جس شرط پر صلح ہوتی ہے کر لینا۔ چنانچہ دونوں بزرگ گئے اور حضرت حسنؓ سے بات کی کہ لڑائی کا ماحول نظر آرہا ہے، ہم لڑنا نہیں چاہتے۔ آپؓ نے فرمایا لڑنا تو میں بھی نہیں چاہتا، لیکن لڑائی سامنے کھڑی ہو تو ’’نہ چاہنے کا‘‘ کوئی مطلب نہیں ہوتا لڑنا ہی پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دمشق سے حضرت معاویہؓ کے نمائندے بن کر آئے ہیں، آپ اپنی شرائط بتائیں۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ میں حضرت معاویہؓ کو امیر ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن میری یہ دو تین شرطیں ہیں۔ ان نمائندوں نے کہا ٹھیک ہے، شرائط قبول ہیں۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا پہلے حضرت معاویہؓ سے پوچھ لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت معاویہؓ نے ہمیں یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ حضرت حسنؓ جو شرط بھی کہیں آپ نے منظور کر لینی ہے، لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے دستخط کر دیے اور حضرت حسنؓ نے صلح کا اعلان کر دیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی بھی تھی۔ بخاری شریف کی روایت ہے ایک دن جناب رسول کریمؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، سامنے بچے کھیل رہے تھے جن میں حضرت حسنؓ بھی تھے، آپ نوعمر بچے تھے۔ آپؓ کا کرتہ پاؤں سے اٹکا تو زمین پر گر گئے۔ حضورؐ سے برداشت نہیں ہوا، فطری بات ہے کہ نواسوں اور پوتوں کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ جب کہ نواسے بھی حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہوں، ان جیسے نواسے کس کو ملیں گے۔ آپؐ خطبے کی حالت میں ہی منبر سے اترے اور جا کر حضرت حسنؓ کو گود میں اٹھایا، سینے سے لگایا اور آکر منبر پر کھڑے ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کو تھپکی دی اور ارشاد فرمایا ’’ان ابنی ھذا سید وسیصلح اللہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘۔ میرا یہ بیٹا سردار ہے، میرے اس بیٹے کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کو اکٹھا کر دیں گے۔ دونوں طبقے بڑے تھے، شخصیات کے اعتبار سے بھی دونوں طرف بڑی بڑی شخصیات تھیں اور کثرت کے اعتبار سے بھی دونوں بڑی طاقتیں تھیں۔ حضرت حسنؓ کو یہ فرمان نبویؐ یاد تھا، لہٰذا آپؓ نے صلح کر لی اور مسلمانوں کی دونوں طاقتیں اکٹھی ہو گئیں۔ اس پر مسئلہ کھڑا ہو گیا اور حضرت حسنؓ سے سوالات شروع ہو گئے کہ آپ نے صلح کیوں کی ہے؟ آپ کو خلیفہ بنایا تھا تو آپ نے خلافت کیوں چھوڑی۔ امام سیوطیؒ نے نقل کیا ہے کہ ایک تابعی بزرگ حضرت جبیر بن نضیرؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسنؓ سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے یہ کیا کیا، آپ کو خلافت کی ضرورت نہیں تھی؟ حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ میرے ساتھ عرب کے وہ قبائل ہیں اور اکثریت و طاقت کے وہ لوگ ہیں کہ اگر میں کھڑا ہو جاؤں تو سب کھڑے ہوں گے۔ میں جس سے لڑوں گا وہ اس سے لڑیں گے، جس سے صلح کروں گا وہ اس سے صلح کریں گے۔ لیکن میں دو وجہ سے نہیں لڑنا چاہتا۔ ایک ’’ابتغاء وجہ اللہ‘‘ اللہ کی رضا کے لیے لڑائی چھوڑ رہا ہوں۔ اور دوسرے ’’حصن دماء المسلمین‘‘ میں مسلمانوں کی خون ریزی کا باعث نہیں بننا چاہتا۔ وہی بات جو حضرت معاویہؓ نے فرمائی کہ یتیموں اور بیواؤں کو کون سنبھالے گا؟ اور حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھا کہ کلمہ گو کے قتل کا باعث نہیں بنوں گا۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ اللہ کی رضا اور مسلمانوں کی خون ریزی کو بچانے کے لیے میں نے صلح کی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بزرگ تین ہیں لیکن ان کا ذوق مشترک ہے۔ حضرت عثمانؓ کا ذوق بھی یہی ہے، حضرت معاویہؓ کا ذوق بھی یہی ہے، اور حضرت حسنؓ کا ذوق بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھوں نہ بہے۔ آج امت جس حالت میں ہے، ان تینوں بزرگوں کے اس ذوق کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان متحد ہوں اور ایک دوسرے کا خون بہانے کی بجائے دشمن کے مقابلے میں آئیں، یہی ان بزرگوں کے اسوہ میں ہم سب کے لیے سبق ہے۔