مسلسل بڑھتے ٹیکس اورمسلسل پستے عوام

(گزشتہ سے پیوستہ) پاکستان کی حکومتیں صرف قرض حاصل کرنے کے لیے تمام شرائط پر عمل کرتی ہیں مگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہم پہلے اکیس پروگرام کرچکے ہیں جن میں سے ایک ہی پروگرام تکمیل کو پہنچا، باقی بیچ راہوں میں ہی رہ گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے، جس نے پاکستان کو ایک Vicious Circle میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے زائد ہیں۔ ہماری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں سننے میں آ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں میں % 20 اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 90 کے قریب وزراء کی تعداد اور ان کی مراعات اور بیرونی دورے ۔ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ کیا عوام کو ریلیف مل سکے گا؟ اسے تو ضروریات زندگی چاہئیں جو ابھی مہنگی ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح اس اتحادی حکومت نے بھی ٹیکس بیس بڑھانے اور اکانومی کو دستاویزی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیالیس، تینتالیس لاکھ افراد ٹیکس گوشوارہ داخل کرواتے ہیں۔ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد یا تو زیرو کی ریٹرن فائل کرتی ہے یا بہت کم آمدن ظاہر کر کے صرف فائلر ہونے کے لیے گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔ ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جس پر جتنا چاہے بوجھ ڈال دیا جائے کیونکہ ان کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ باقی انجوائے کرتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی ٹھوس اقدامات کیے بنا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان پہلے ہی برین ڈرین کا شکار ہے۔ لوگ باہر بھاگ رہے ہیں ان میں پروفیشنلز بھی ہیں، مزدور طبقہ بھی ہے اور سرمایہ دار بھی۔ حکومت ٹیکس کا ایک بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کر کے حاصل کرتی ہے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں کوئی توازن نہیں ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی مد میں 12سے 14 ٹریلین اکٹھا کیا جا سکتا ہے اگر حکومت اور ایف بی آر سنجیدگی سے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دے تو۔ مگر اس کے لیے ایف بی آر کو کام کرنا ہو گا۔ ایف بی آر کے بابو لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر معاملات چلا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد اگر ہم کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے تو ہمیں اسی vicious circle میں ہی رہنا ہو گا اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ اگر ہم ٹیکس، زراعت، انڈسٹری، اخراجات کم کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات اور ریفارمز نہیں کرتے تو جیسا کہ امپورٹ پر سے مکمل طور پہ پابندی ہٹا لی گئی ہے اس سے جتنے ڈالر آئیں گے ان میں سے بڑی تعداد امپورٹ بل کلیئر کرنے میں خرچ ہو جائیں گے اور ہمارے حصے میں صرف قرض اور اس کا سود ہی بچے گا۔ امپورٹ کے متعلق پالیسی بنانا ہوگی جو لگژری آئٹمز میں ان اشیاء کی امپورٹ پر ٹیکس کی شرح چاہے ہزار فیصد تک بڑھا دیں جن لوگوں نے لگژری چیزیں استعمال کرنی ہیں، وہ ادا کریں ٹیکس۔ غریب آدمی کا کیا قصور ہے؟جہاں پام آئل کی مد میں بے تحاشا زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے تو اس کے متعلق پالیسی بنائی جائے۔ پام آئل کی پلانٹیشن کا کامیاب تجربہ سندھ میں کیا جا چکا ہے اسے بڑھایا جائے تاکہ ہم اپنی ملکی ضروریات پوری کر سکیں اور اس کی مد میں امپورٹ بل کم کر سکیں۔ چائے کی امپورٹ پر بھی ہم بڑی مقدار میں زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں یہاں مانسہرہ شنکیاری میں چائے کی کاشت ہو رہی ہے، اسے مزید بڑھایا جاسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے علاقے بھی دریافت کیے جا سکتے ہیں جہاں چائے کی کاشت ممکن ہو تاکہ ہم لوکل کھپت پوری کرنے کے بعد اسے ایکسپورٹ کر سکیں۔ پاکستان اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ان حالات میں ٹیکس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ ہول سیل، ریٹیل سیل اور زراعت وغیرہ کے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں سیلز ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اس میں بہت سے لوپ ہولز موجود ہیں جعلی اور فیک انوائسز کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو کہ وقتاً فوقتاً پکڑے بھی جاتی ہیں اور یہ سلسلے ٹیکس چوری کا باعث بنتے ہیں۔ پھر سیلز ٹیکس کے ریفینڈز میں بھی خرابیاں موجود ہیں۔ ایک ناقص رائے ہے کہ جہاں ہم اپنے دوست عرب ممالک کی اتنی تعریفیں کرتے ہیں تو وہاں VAT ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہم وہ کیوں نہیں اپنا لیتے؟ اس سے جعلی انوائسز، ان پٹ ایڈجسٹمنٹ اور ریفنڈز کا سارا نظام ہی ختم ہو جائے گا۔