شہدا ء کا مقام و مرتبہ

قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جائے اسے مردہ مت کہو،بلکہ وہ زندہ ہے،لیکن تم شعور نہیں رکھتے ،شہادت اللہ کا وہ خاص انعام ہے کہ جس سے وہ راضی ہو۔اسے ہی اس انعام سے نوازا جاتا ہے، شہدا ء کا مقام و مرتبہ سمجھنے کے لئے غزوہ احد کے شہدا کا ذکر کرتے ہیں، غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی: ’’اے اللہ!کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے،پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ!تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت وجہ سے اور اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں، تو نے سچ کہا۔’’چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔اس جنگ میں حضرت جابرؓ کے والد عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ اور حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی،لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا،بالکل تروتازہ تھیں۔یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا،کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا۔ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں میدان اُحد سے ایک نہر کھدوائی، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں۔لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں، نرم، ملائم تھیں۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ اُحد کے چالیس سال بعد کا ہے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پائوں میں کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پائوں سے خون جاری ہوگیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی۔یہ واقعہ غزوہ اُحد کے تقریبا ًپچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منورہ کی مٹی اس قدر شور(نمکیات والی)ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں۔اسی طرح حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی اللہ عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہدا ء کو احد سے مدینہ منورہ لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان اُحد ہی میں دفن کیا جائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے شہداء کے بارے میں فرمایا: ’’میں ان سب کا گواہ ہوں،جو زخم بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔غزوہ اُحد میں شہید ہونے والے صحابہؓ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے جابرؓ!کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں؟اور وہ یہ کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا ہے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا: ’’اے باری تعالیٰ!مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ میری عادت کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹائوں۔‘‘انہوں نے عرض کیا۔ ’’پروردگار!جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ترجمہ: ’’اور اے مخاطب!جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا،جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہیں؟ ‘‘ لوگوں نے بتایا: ’’اللہ کا شکر ہے،آپ بخیر و عافیت ہیں۔‘‘ اس پر عورت نے کہا ’’میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔‘‘پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں۔’’آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں۔غزو ہ اُحد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا۔یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا اور اس بارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کاٹو نہیں ۔‘‘ پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سیاس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی: ’’اے اللہ! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔‘‘ چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی،حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ایک اور صحابیؓ کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا۔ وہ فورا ًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔ غزوہ اُحد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔ترجمہ: ’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہی تو ہیں، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔‘‘(سورہ آل عمران: آیت 144) جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔