ہندوستان‘ حضرت تھانوی کے اقوال کی روشنی میں

( الافا ضات یومیہ جلد ششم صفحہ 278 ) ہندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی قیادت میں کانگریس سے بد ظن تھا‘ کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا، کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوئوں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندوستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا ؟ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے جمعیت علما ہندکو بار بار متنبہ کیا کہ ہندوئوں پر بھروسہ کرنا غیر دانشمندی ہے…انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں ،بر سر اقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں، لیکن اگر یہ ہندو بر سر اقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے،خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے‘ نیزتحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی…چنانچہ ایک مجلس میں فرمایا ِ کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے، تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہوبھی گئی تو ہندوئوں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی۔
تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے، انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے گائوماتا کے کفریہ نعرے بلند کئے… ہندوئوں کی ارتھی کو کندھے دیئے، مساجد میں کافروں کو بٹھا کر منبر رسولﷺ کی بے حرمتی کی گئی، یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے‘ اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی۔ (الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ109) حضرت مولانا تھانوی کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی گاندھی کے منہ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کر دیا جائے، فرماتے ہیں: اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز، کھدر گاندھی کی تجویز ،ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز، غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے کچھ تو غیرت آنی چاہیے… ایسے بد فہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے، سخت صدمہ ہے سخت افسوس ہے اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( الافاضات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90ا) ا س سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا،ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے، تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہو سکتی؟ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہو سکتی؟ کیا گائے کی قربانی واجب ہے؟ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے اس طرز فکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ: اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی ،اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوئوں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے؟یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86) ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی ) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا‘ مولانا تھانوی کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسولﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں‘تحریک خلافت کے دوران ہندوئوں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے‘ مولانا تھانوی کے نزدیک لفظ جئے چونکہ شعار کفرہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔ ( الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 ) جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جاتا ہے ،اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں۔ (جاری ہے)