معاشی تباہی ،شبر زیدی کی گواہی

(گزشتہ سے پیوستہ) شبرزیدی نے یہ بھی بتایا کہ جب انہوں نے تمباکو انڈسٹری پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ کے پی کے ایم این ایز ملنا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ تمباکو فیکٹری پر ٹیکس بند کریں یہ نہیں ہوسکتا، ہمارے تمام ایم این ایز تمباکو کے کاشتکار ہیں ، میں نے کہا کہ 500 کو زیرو کردوں گا، تمباکو فیکٹری تو رجسٹرڈ کرنے دیں، جواب آیا کہ یہ نہیں ہوسکتا آپ ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 30 فیصد سگریٹس جن کی ڈیوٹی کا ریٹ 74 فیصد ہے وہ جعلی ہیں۔شبر زیدی نے کہا کہ بعض دفعہ تو میں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتا تھا، میں تو آج کنونس ہوچکا ہوں کہ مافیاز ہیں جو حکومتوں کو چلاتے ہیں، پنجاب سے اسکریپ جاتا ہے جمرود میں فیکٹریاں ہیں وہاں سریا بنتا ہے، وہ نہ بجلی کا بل اور نہ ٹیکس دیتے ہیں، ان پر ہاتھ ڈالا تو 20 سینٹرز وزیراعظم کے پاس آکر بیٹھ گئے کہ انہیں روکیں۔
یہ بھی ایک چیز تھی… جس پر میرا وزیراعظم سے اختلاف ہوا، حماد اظہر نے اس معاملے میں مجھے سپورٹ کیا کیونکہ ان کا بھی اسٹیل کا کاروبار ہے اور وہ چاہتے تھے کہ فاٹا کی فیکٹریوں ٹیکس لگایا جائے،شبر زیدی نے بتایا کہ اس معاملے پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سینیٹرز نے بتایا کہ دبا ڈالا گیا تو وہ پشتون تحفظ موومنٹ کو فنانس کردیں گے، میں نے اس وقت پہلی دفعہ سابق وزیراعظم کو پریشان دیکھا،سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ روز فرمائش کی جاتی تھی کبھی اس کی، کبھی اس کی، فائل لاتے…کہ یہ کیس کھول دیں، میں نے اپنی پوری مدت میں کسی ایک شخص کا کیس نہیں کھولا ، شہزاد اکبر مجھے کوئی کیس کھولنے کا براہ راست نہیں بولتے تھے، شہزاد اکبر آکر بیٹھ جاتے تھے وزیراعظم کہتے تھے کہ شہزاد یہ کہہ رہا ہے کہ کیا کرنا ہے، میں جواب دیتا تھا کہ سر شہزاد کو کہیں میرے ساتھ آجائے، میں کہتا تھا کہ سر یہ کیس نہیں بنتا رہنے دیں‘ اس کو چھوڑیں، وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ کیس کھولو، کہتے تھے شہزاد فائلز لے کر آیا، میں کہتا تھا ٹھیک ہے فائل مجھے دے دیں میں دیکھ لیتا ہوں، ٹیکس کا کیس کھولنا بڑا ٹیکنیکل مسئلہ ہوتا ہے، نان پروفیشنل آدمی ہوتا تو وہ کیس کھول بھی دیتا ،انہوں نے کہا کہ دسمبر تک تو ڈیفالٹ نہیں ہوگا لیکن آگے بہت پریشان کن حالات نظر آرہے ہیں، آئی ایم ایف والوں نے جو کاغذ بنا کر دیا ہے وہ آپ کی فیور کی ہے، جب مارچ 2024 آئے گا تب آئی ایم ایف بات کرے گا کہ ان کا کیا ارادہ ہے، ابھی آئی ایم ایف والے پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں، پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مارکیٹ سے پیسے اٹھانے پڑیں گے، آئی ایم ایف نے آپ کو کارنر میں کھڑا کردیا ہے کہ مارچ میں سخت پروگرام میں آنا ہے، میں نے کہا تھا کہ 2023 میں جو بھی الیکشن جیتے گا معاشی لحاظ سے بہت بدقسمت ہوگا، آئی ایم ایف کے پروگرام ڈیفالٹ سے تو بچالیتے ہیں عوام کیلئے فیصلے سخت ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ مارچ 2024 میں آئی ایم ایف سختی سے پیش آئے گا، مارچ 2024 میں پاکستان کا یس اور نو ہے۔ شبرزیدی نے کہا کہ تمام جماعتیں کہتی ہیں انھوں نے یہ کیا وہ کیا، لیکن کوئی پاکستان کی بلینس شیٹ نہیں پڑھ رہا، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں امپورٹڈ کاٹن استعمال ہورہا ہے، آئی پی پی والے سلسلے سے بجلی کی قیمت بنگلا دیش اور بھارت سے زیادہ ہے۔ شبر زیدی نے کہا کہ اپریل 2019میں وزیراعظم کے پاس گئے کہ آئی ایم ایف میں جانا پڑے گا، وزیراعظم نے جواب دیا کہ کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، میں نے پھر وزیراعظم کو سمجھایا کہ یہ پوزیشن ہے، پریزنٹیشن کے بعد وزیراعظم نے وزیر خزانہ اسد عمر کو فون کیا کہ یہ تو یہ کہہ رہے ہیں، اسد عمر نے وزیراعظم کو کہا کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں، وزیراعظم نے اسد عمر سے کہا تم نے مجھے بتایا نہیں، اسد عمر نے وزیراعظم کو جواب دیا کہ میرا خیال تھا کہ آپ کو پتا ہے، اس کے تین چار دن بعد اسد عمر کو تبدیل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم آئی ایم ایف کو فون کرے تو مطلب وزیر خزانہ کیساتھ ڈیڈلاک ہوچکا‘ شبرزیدی نے کہا کہ تعمیراتی صنعت میں ایمنسٹی اسکیم تھی ، آئی ایم ایف والے ایمنسٹی نہیں مانتے تھے، حفیظ شیخ نے کہا کہ وہ ایمنسٹی اسکیم پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات نہیں کریں گے، وزیراعظم کے بات کرنے کا مطلب یہی ہے کہ باقی سب ناکام ہوچکے، وزیراعظم جب ہاتھ پیر جوڑتا ہے تو براہ راست نہیں پھر بذریعہ واشنگٹن جوڑتا ہے، شوکت ترین کی حکومت چلتی رہتی تو پارٹی کو الیکشن میں 5 فیصد ووٹ بھی نہ ملتا،شبر زیدی کے یہ سارے انکشافات اقتدار کے ایوانوں میں مافیاز کی اجارہ داری اور ہم کوئی ’’غلام‘‘ ہیں‘کی اصلیت کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں ۔ ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا 75سالوں سے پاکستان میں حکومتیں اسی طرح چلتی رہی ہیں؟کیا یہ مافیاز ریاست سے بھی طاقتور ہیں؟کیا ان مافیاز سے پاکستان کی جان نہیں چھڑائی جاسکتی ؟پاکستان تو ڈیفالٹ ہونے کی سرحد پر کھڑا ہے، مگر مافیاز کے سرغنوں کی بے پناہ دولت سنبھالے نہیں سنبھلتی ،ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان بنا ہی ’’مافیاز‘‘ کے لئے ہے،شبر زیدی کے انکشافات کے بعد میرا یہ موقف مزید مضبوط ہوا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی ،ترقی و خوشحالی کا راز صرف اور صرف نفاذ نظام اسلام میں ہی مضمر ہے۔