شہادت حسینؓ کامطالبہ

(گزشتہ سے پیوستہ) امام حسینؓ ذوالحج60ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبداللہ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصداحترام حضرت امام حسینؓ سے کہا: میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لیجائیں، وہ ضرورآپ کوقتل کر ڈالیں گے۔ لیکن حضرت امام حسین ؓ نے واضح الفاظ میں اپنے رفقا کوبتادیا تھا کہ ان کے پیش نظر “خلافت علی منہاج نبوت”کے احیاء کے سواکچھ نہیں۔اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جواہمیت ہے اس سے حضرت حسینؓ پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامر کے ادارہ کوجس اندازمیں رسول اکرمﷺاورخلفائے راشدین نے قائم فرمایا تھا،اس کے تحفظ اوردفاع کیلئے حضوراکرمﷺنے جو تاکیدفرمائی تھی وہ بھی حضرت حسینؓ کے علم میں تھی۔
تاہم آخروقت میں کربلاکے میدان میں حضرت حسینؓ کوصورتحال کااندازہ ہوگیا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت،کوفہ کے لوگوں کی بیوفائی ، یزیدکے لشکرجرارکے مقابلے میں آپ کامختصرقافلہ بظاہرپہاڑاورچیونٹی کامقابلہ لیکن حضرت حسینؓ نہائت بہادر،جرات مند اور انتہائی شریف النفس تھے۔وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھے مگراپنے ساتھ نیزعورتوں اور بچوں کیلئے اپنے دل میں جذبہ رحم کی پیدائش کو روکنا ان کیلئے ممکن نہ تھاچنانچہ آخری دن محرم الحرام کی دس تاریخ61ھ کربلاکے میدان میں یزیدکی فوج کے سامنے جوتقریرفرمائی وہ فصاحت وبلاغت کابے نظیرشاہکارہے۔آپ نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا:”عیسیٰ کاگدھااگرباقی ہوتاتوتمام عیسائی قوم قیامت تک اس کی پرورش کرتی،تم کیسے مسلمان اورامتی ہوکہ نبی ﷺ کے نواسے کوقتل کرناچاہتے ہو! دراصل کوئی دوسری قسم کامسئلہ ہوتا توکوفی مسلمان شائدعیسائیوں سے چارہاتھ آگے ہوتے لیکن یہاں یزیدکے لشکرکے سامنے نواسہ رسول ﷺ ان کے سیاسی حریف کے طور پر کھڑے تھے اورسیاسی حریف کونہ مسلمان بخشنے کو تیار ہوتے ہیں نہ عیسائی ۔ اسی یزید نے64ھ میں مدینہ پرچڑھائی کی تھی اس نے مسلم بن عتبہ کو تاکیدی حکم دیاتھاکہ حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین ؓکاپوراپورا خیال رکھنا کیونکہ وہ مدینے میں سیاسی زندگی سے الگ ہو کر مدینہ کے نواح میں الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے ۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ آخروقت میں حضرت حسین ؓ یزیدسے صلح کیلئے راضی ہوگئے تھے ۔ انہوں نے یزیدکے نمائندے عبیداللہ بن زیادکے سامنے تجاویز پیش کیں۔ 1۔میں مکہ واپس چلاجاوں اوروہاں خاموشی کے ساتھ عبادت الہی میں مشغول ہو جا ئوں۔ 2۔مجھے کسی سرحدکی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفارسے لڑتاہواشہیدہوجاوں۔ حضرت حسینؓ کے رویے میں تبدیلی سے یزیدکی فوجوں میں خوشی کی لہردوڑگئی،اگرچہ کربلاکے میدان میں وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے ،اس کے باوجودنواسہ رسولﷺ کے احترام کایہ حال تھاکہ دونوں طرف کے لوگ مل کرنمازاداکرتے تھے اوراکثرحضرت حسینؓ ہی کی اقتدا میں نمازادا کرتے تھے۔عبیداللہ بن زیادکے پاس جب یہ پیغام پہنچاتووہ بھی بغیرلڑائی کے اس عمدہ حل پربہت خوش ہوالیکن اس کے مشیرشمرذی الجوشن نے عین وقت پرعبیداللہ بن زیادکاذہن پھیر دیا۔ اس نے حضرت حسینؓ کے لوٹنے کے سارے راستے بندکردیئے اوربالآخر کربلاکاوہ معرکہ جس میں عمروبن سعد نے پہل کرکے حضرت حسینؓ کے قافلے پرپہلاتیرپھینک کراس کاآغاز کیا تھا جس کاانجام حضرت حسینؓ کی شہادت پرمنتج ہوا۔ تاریخ کے ان دوکرداروں سیدنا حسینؓ و سیدنا حسینؓ پرملت اسلامیہ قیامت تک جتنابھی فخر کرے کم ہے۔گوحضرت حسینؓ نے بھی آخری وقت میں حضرت حسنؓ کے غیرسیاسی طریقہ کار کو بھی عمل میں لانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت حسینؓ سے”خلافت علی منہاج نبوت”کے تحفظ اوردفاع کاکام لے کر ان سے بے مثال قربانی لینا مقصودتھی اوران کی شہادت سے امت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانا مقصودتھاکہ حالات کیسے ہی پرآشوب اوردگرگوں ہوں،اسلامی نظام حکومت، اسلامی نظام اطاعت کے قیام ونفوذ جوکہ ایمان کے اولین تقاضوں میں سرفہرست ہیں کی کوشش ہروقت، ہرزمانے میں جاری رکھنی چاہئے جب تک خلافت کے ادارہ کو مکمل اس کی اصلی شکل میں بحال نہ کرلیاجائے۔اس کے علاوہ بھی ان کرداروں میں بے شماردوسرے اسباق ہمارے لئے موجود ہیں، صرف شرط یہ ہے کہ ہم خودمخلص ہوں۔ خوشاوہ آبلہ پاکارواں اہل جنوں لٹاگیاوہ بہاروں پہ اپنی سرخی خوں