5 اگست جب مقبوضہ کشمیر تاریکیوں میں ڈوب گیا

مورخ اور سائنسدان انسانی زندگی کا جب مطالع کرتے ہیں تو تحریر کرتے ہیں کہ انسانوں کی زندگی میں بعض دن انتہائی تاریک اور راتیں انتہائی غمناک ہوتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لئے 5 اگست 2019 ء کا دن تاریک اور رات غمناک تھی جس دن نہ صرف ان سے ان کی آزادی چھین لی گئی بلکہ ان کی زندگیاں ہی کشمیریوں سے چھین لی گئیں۔مودی سرکار نے ایک دیوانہ اور مستانہ نعرہ لگا کر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کر کے اسے ہندوستان میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔لیکن شاید وہ یہ بھول گیا کہ جب تک ایک بھی غیرت مند کشمیری زندہ ہے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم نہیں کی جا سکتی۔میں اور کشمیر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ میری عمر کے لوگوں نے جب بھی دیکھا تو کشمیری نوجوان نئی ہمت، نئے حوصلے اور نئی جرت کے ساتھ میدان میں آئے اور سامنے آ کر ہندوستان کی حکومت کے اس ناجائز قبضے کو للکارا۔وہ کونسا ایسا ظلم ہے جو ان پر نہیں ڈھایا گیا اور پھر وہ کون سا ظلم اور جبر ہے جس کے سامنے کشمیریوں نے اپنا سر جھکایا ہو۔کشمیری اپنے سر کٹواتے رہے ہیں۔اپنے سینوں پر گولیاں جھیلتے رہے ہیں.لیکن ان کے قدموں میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ہندوستان میں گاندھی، نہرو سے لے کر مودی تک ہر سیاستدان نے اپنا پورا زور لگایا کہ کشمیریوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کیا جائے. ہر دفعہ یہ سب سیاستدان اور حکمران ناکام رہے۔
25 دسمبر 1932ء میں پونا میں گاندھی اور اچھوتوں کے لیڈر ڈاکٹر امبید کے درمیان معاہدہ ہوا۔ جس میں اچھوت جداگانہ انتخابات کے حق سے دستبردار ہوگئے اور ان کے لئے کچھ نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ حکومت وقت نے بھی اس کو تسلیم کیا اور پھر کانگریسی لیڈروں نے کمیونل ایوارڈ کی مخالفت چھوڑ دی۔کانگریس ایک طرف تو اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتی اور دوسری طرف اقلیتوں کے حقوق غضب کرنے سے بھی نہیں چونکتی۔جب بھی اچھوت، عیسائی،سکھ اور اقلیتیں اپنے تحفظ کی بات کرتیں۔ کانگریس اس کی مخالفت میں پیش پیش ہوتی۔ان تمام حالات کو اس وقت کے مسلم لیگی لیڈر بڑی عمیق نظر سے دیکھ رہے تھے اور ہندوستانی سیاست کا گہری نظر سے مطالعہ کر رہے تھے۔ہندوستانی سیاست کے افق پر چھا جانے والی شخصیت محمد علی جناح نے کچھ سالوں سے انگلستان میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔گول میز کانفرنسوں کے بعد عظیم قائد نے لندن ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔لیکن وطن سے محبت قائد کے دل میں موجزن رہی۔عظیم قائد خود فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ نہ تو میں ہندوں کا ذہن تبدیل کر سکتا ہوں اور نہ ہی مسلمانوں کو خطرناک حالات کا احساس دلا سکتا ہوں۔میں اتنا مایوس اور اتنا افسردہ ہو گیا ہوں کہ میں نے لندن میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ ہندوستان سے محبت نہیں بلکہ میں بالکل مجبور ہو گیا ہوں۔آپ کی ہندوستان سے غیر حاضری زیادہ دیر تک نہ رہ سکی۔آپ نے مسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی نا کو سہارا دینے کے لئے ہیمپ اسٹیڈ کے علاقے ویسٹ ہیتھ روڈ کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا بیڑا اٹھایا.جس کا ذکر آپ نے بعد میں آنے والے دنوں میں اس طرح کیا۔دوسرے لوگ جاگ رہے ہیں اور ان کے لیڈر مزے سے سو رہے ہیں اور ہمارا تو یہ حال ہے ہمارے لوگ گہری نیند سو رہے ہیں اور مجھے تنہا ان کا پہرہ دینا پڑتا ہے۔ نوبزادہ لیاقت علی خان نے قائد سے درخواست کی کہ آپ ہندوستا ن واپس چلے جائیں وہاں لاکھوں اور کروڑوں مسلمانانِ ہند کو آپ کی قیادت کی ضرورت ہے۔آذان کے72 سال بعد 5 اگست 2019 ء کو جب سے ہندوستان نے اس ظالمانہ فعل کا اقدام کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا حصہ ظاہر کرنا شروع کر دیا تو کشمیری عوام نے اپنی تحریک میں شدت پیدا کر لی۔اس کے ساتھ پاکستان نے بھی اپنی سفارتی جنگ کے ہر محاذ پر پہلے سے چار قدم آگے بڑھ کر لڑائی لڑنی شروع کی.اللہ تبارک تعالی نے پاکستان کو اپنی اس سفارتی جنگ میں فتح عطا کی۔ آج کشمیر کی آزادی اور ہندوستان کی مجرمانہ زیادتی کے خلاف دنیا بھر سے صرف آوازیں ہی نہیں اٹھ رہیں بلکہ آہستہ آہستہ واویلا شروع ہو چکا ہے کہ ہندوستان کشمیر سے اپنی فوجیں نکال کر کشمیر کو آزاد کرنے کا اعلان کرے۔آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جلد یا بدیر ہندوستان کو عالمی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور کشمیر کو آزاد کرنا ہی پڑے گا۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے بڑے بڑے چوراہوں پر الیکٹرانک کیلینڈر اور گھڑیال نصب کئے گئے ہیں جوان چوراہوں پر سے گزرنے والے تمام پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے سفرا کے ذہنوں پر بھی ہر وقت کچوکے لگاتے رہتے ہیں کہ کشمیری بھائیوں کی زندگیوں پر ہندوستان کے قبضے کو اتنے دن، اتنے گھنٹے اور اتنے منٹ گزر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گھڑیال نما کیلینڈر اپنے کشمیری بھائیوں کو بھی ایک ایک منٹ کا یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ہمارے دل آپ لوگوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم ایک لمحے کے لئے بھی آپ کی یاد سے غافل نہیں ہیں۔ہم نہ صرف خود ہی آپ کی قید اور سختیوں کو بھولے ہیں نہ دنیا کو بھولنے دیا ہے اور نہ کسی کو بھولنے دیں گے۔دنیا بھر کے سفارتی ماہرین نے بھی پاکستان کی ان کوششوں اور کاوشوں کی تعریف کی ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے ہر مسلمان کی اس شعر کے ساتھ دعائیں عرش عظیم تک پہنچ رہی ہو گی۔اندھیری رات ہیاور حبس بھی بلا کاہیتو آندھیاں بھی ہمیں بخش اور چراغ بھی دےآب 5 اگست 2023ء کو پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام ہندوستان کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف آواز بلند کی جائے گی۔ٹی وی ٹاک شوز میں دانشوروں اور صحافیوں کے مذاکرے ہونگے۔ان کے ایک ایک لفظ کو ہندوستان کے ایوانوں تک پہنچایا جائے گا۔آج دنیا بھر کے میڈیا کے نمائندے پاکستانیوں کے جذبات کو ریکارڈ کر کے اپنے اپنے ٹی وی چینلز پر اپنی زبان میں چلائیں گے۔یہ تمام الیکٹرانک میڈیا کے پروگرامز اور اخباری کالمز کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تازہ قوت اور نئی طاقت بخشیں گے۔5 اگست 2019 ء کا دن کشمیریوں کی تاریخ میں تاریک دن اور اندھیری رات ہوا جس کو کشمیری کبھی نہیں بھولیں گے۔