پنجاب کی ٹیل پر ن لیگ میں خانہ جنگی

(گزشتہ سے پیوستہ) اپنے خلاف 20 کروڑ روپے کے فراڈ کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد میاں اعجازعامر نے ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کیا کہ انہیں اپنی آزادانہ سیاسی پرواز سے روکنے کے لئے یہ من گھڑت ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے ، انہوں نے اس مشترکہ خاندانی بزنس کی طویل تفصیل بھی بیان کی کہ جس کی تینوں بھائیوں کے درمیان تقسیم کے دوران تنازع پیدا ہوا اور معاملہ اس ایف آئی آر کے اندراج تک پہنچا ، اسی دلچسپ پریس کانفرنس میں میاں اعجاز عامر نے کہا کہ وہ حاجی محمد ابراہیم کو اپنے باپ کی جگہ پر سمجھتے ہیں کیونکہ دونوں چھوٹے بھائیوں کی سیاست و کاروبار کی بنیادیں استوار کرنے میں بڑے بھائی نے بالکل باپ بن کر سرپرستی کی لیکن دوران پریس کانفرنس ایک اور موقع پر تینوں بھائیوں کے درمیان جاری اس تنازع کو تاریخی تناظر میں جوڑتے ہوئے میاں اعجاز عامر نے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل اور برادران یوسف کی مثالیں بھی دے ڈالیں ۔ اپنے موقف کی سچائی اور پارسائی ثابت کرنے کے لئے میاں اعجاز عامر نے اللہ اور رسول اللہ ﷺ اور روز قیامت کا بھی ذکر کیا ، وہ یہ معاملہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قسم قرآن پر نمٹانے کی بھی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ یہ تو اس تنازع کا ایک پہلو ہے ، دوسرا پہلو اس تنازع کی وہ چنگاریاں ہیں کہ جو چوہدری محمد جعفراقبال کے گھرانے کی سیاست کا دامن جلا سکتی ہیں ، پنجاب کی ٹیل کے جہاندیدہ اور مخلص مسلم لیگی رہنمائوں کے پاس اس جلیبی جیسے پیچیدہ مسئلے کے کئی آسان حل ہیں کہ جن پر عمل کر کے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن مسئلہ یہ ہے کسی مقام پر میاں امتیازاحمد کی ہٹ دھرمی رکاوٹ بن جاتی ہے تو کسی جگہ میاں اعجاز عامر کی ضد راستے میں حائل ہو جاتی ہے ، دونوں چھوٹے بھائی ایک طرف اپنے بڑے بھائی حاجی محمد ابراہیم کو اپنے باپ کی جگہ قرار دیتے ہیں لیکن جب حساب کتاب کرنے بیٹھتے ہیں تو بھائی بلکہ بھائی لوگ بن جاتے ہیں۔میاں اعجاز عامر خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اس مسئلہ کے اسلامی حل کی بات کرتے ہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ مالی معاملات میں باپ سے تنازع کرنے والے بیٹے کی کہانی بیان کی جائے جس میں ایک اسلامی حل بھی سامنے آیا ، اس تاریخی واقعے میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں ، لیکن یہ سبق وہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جن کا فہم اسلام نیک فطرت اساتذہ کا دیا تحفہ ہو ، صدیوں پرانی کہاوت ہے کہ اگر آپ دین کا علم لومڑی سے سیکھیں گے تو جلد یہ یقین کر لیں گے کہ مرغیاں چرانا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ پارٹی قائد میاں محمد نوازشریف اپنے چھوٹے بھائی میاں محمد شہبازشریف کے چہیتے سابق ایم این اے میاں امتیاز احمد کے گھرانے کے مبینہ داخلی خلفشار کی تاریخ سے ذاتی طور پر بھی واقف ہیں کیونکہ مشرف دور میں تینوں بھائی ایک باریک گیم انتہائی چابکدستی کے ساتھ پہلے بھی کر چکے ہیں ، اس بار فرق صرف یہ پڑا ہے کہ سابقہ خانہ جنگی میں حاجی محمد ابراہیم اور میاں اعجاز عامر ایک ساتھ تھے اور میاں امتیازاحمد مخالف تھے جبکہ اس بار میاں امتیازاحمد اور حاجی محمد ابراہیم ایک ساتھ ہیں اور میاں اعجاز عامر مخالف کیمپ میں ہیں ۔ میاں امتیاز احمد کا ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا کوئی قصور مانتے ہی نہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ان کی شکست کی اصل وجہ رحیم یارخان چکوک کی صوبائی نشست پی پی 263 پر مسلسل ایک کمزور ونگ چوہدری محمود الحسن چیمہ کو اپنے ساتھ رکھنا ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف کو گمراہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ رپورٹ پیش کی کہ رحیم یارخان شہر کی صوبائی نشست پی پی 262 پر اپنے دوسرے ونگ چوہدری محمد عمر جعفر اور چوہدری جعفراقبال کی حلقے سے مسلسل غیر حاضری کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے ، تحصیل رحیم یارخان کے چکوک روایتی طور پر مسلم لیگ ن کا انتہائی مضبوط گڑھ رہے ہیں ، چوہدری جعفراقبال اور خود میاں امتیاز احمد یہاں سے 20 ، 20 اور 30 ، 30 ہزار ووٹوں کی لیڈ لے کر شہر میں داخل ہوا کرتے تھے لیکن جب سے میاں امتیاز احمد نے ضد کر کے چوہدری محمود الحسن چیمہ کو یہاں سے ایم پی اے منتخب کروانا شروع کیا اس ایریا سے رفتہ رفتہ ن لیگ کا بھاری ووٹ بنک کم ہوتا گیا ، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آج بھی چوہدری محمد جعفراقبال یہاں سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں تو وہ نہ صرف خود باآسانی ایم پی اے منتخب ہو جائیں گے بلکہ اپنے ساتھی قومی اسمبلی کے امیدوار میاں امتیاز احمد کو ایم این اے منتخب کروانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے، اس پینل کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ چوہدری جعفراقبال کے پی پی 263 سے الیکشن لڑنے کی وجہ سے پی پی 262 سے چوہدری عمر جعفرالیکشن نہیں لڑیں گے اور نشست خالی ہونے کی وجہ سے سابق چیئرمین بلدیہ میاں اعجاز عامر کو اس شہری نشست پر پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ آسان ہوجائے گا اور پنجاب کی ٹیل پر مسلم لیگ ن میں جاری موجودہ خانہ جنگی بھی ختم ہو جائے گی ، اس نئی ایڈجسٹمنٹ کا ایک اور فائدہ یہ ہو گا کہ میاں امتیازاحمد کے پاس متوقع عام انتخابات کے دوران یہ بہانہ بھی نہیں رہے گا کہ وہ پی پی 262 پر اپنے کمزور ونگ کی وجہ سے شکست کھا سکتے ہیں ، اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ چوہدری جعفراقبال جیسا جہاندیدہ اور متحرک پارلیمنٹیرین پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے لئے ایک بڑا اثاثہ ثابت ہوگا اور اہم ترین مناصب پر اپنے بااعتماد ترین رہنما فائز کرنے کے دوران پارٹء قائد میاں محمد نواز شریف کے پاس ایک اور اچھا آپشن دستیاب رہے گا ۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کی زوردار مداخلت کے بغیر پنجاب کی ٹیل پر پارٹی میں جاری اس خانہ جنگی کا کوئی حل نکالنا بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا ہے ، پچھلے چار پانچ برسوں سے تینوں بھائی ایک طرف عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں تو دوسری طرف سماجی حوالے سے مل جل کر بھی رہ رہے ہیں ، میاں امتیازاحمد اور میاں اعجاز عامر دونوں کا گھر (تاج پیلس)بھی مشترکہ ہے ، ایک ہی گیٹ استعمال کرنے اور ایک ہی چاردیواری میں رہنے کے ساتھ ساتھ جس چیز نے شکوک و شبہات کو تقویت دی وہ ن لیگ کے شہباز شریف گروپ کے کونسلرز اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کا رویہ ہے کہ وہ میاں امتیاز احمد کے بھی شانہ بشانہ دیکھے جاتے ہیں اور میاں اعجاز عامر کے بھی… اور چوہدری عمر جعفر کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے حوالے سے کیئے گئے سیاسی طاقت کے تازہ ترین مظاہرے کی بھی صف اول میں دکھائی دیئے ۔ اس خانہ جنگی کا یہ پہلو بھی خاصا دلچسپ ہے کہ مشرف دور میں میاں امتیاز احمد نے جو دوہرا معیار اپنایا ، میاں اعجاز عامر آج کل اس کا ایکشن ری پلے کر رہے ہیں ، دونوں بھائی پچھلے پچیس تیس برسوں سے اپنے بڑے بھائی حاجی محمد ابراہیم کو علانیہ اپنے باپ کی جگہ قرار دیتے آئے ہیں۔