حرفِ انکارمؤثرہوگا

(گزشتہ سے پیوستہ) صرف پچھلے سات مہینوں میں امریکہ کے 49سے زائد اعلی امریکی عہدیداروں نے بھارت کادورہ کیاہے۔چندبرس قبل امریکہ الاسکا اور پھر آگرہ میں بھارت کے ساتھ جنگی مشقیں کر کے پاکستان کوپیغام دے چکاہے اوربعدمیں فوری طورپر ’’مشترکہ ڈیفنس پالیسی گروپ‘‘تشکیل دے دیا گیا جس کے تحت امریکہ نے بھارت کوپہلے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات،تھرمل امچنگ اوربغیر پائلٹ اڑنے والے طیارے فراہم کئے اوراس کے بعد امریکہ کی منظوری کے بعد برطانیہ نے ایٹم بم گرانے والے طیارے بھارت کے حوالے کر دیئے۔امریکانے بھارت کے ساتھ ایٹمی توانائی کاسول معاہدہ بھی کیاجس کے بعد یورپ نے بھارت پرعائد پابندیاں بھی ہٹادیں اوراوبامانے خصوصی دورے میں بھارت کوکئی مزیدمراعات سے نوازاجبکہ پاکستان کواب تک ہمیشہ ’’ڈومور ‘‘کی سزادی گئی۔ امریکہ اوراس کے اتحادی پاکستان کواب بھی دہشت گردوں کی جنت اوربھارت کواس خطے میں صبرواستقامت کا پہاڑ سمجھتے ہیں۔پاکستان پچھلے75سالوں سے امریکہ کا غیرمشروط دوست چلاآرہاہے اوراسی امریکہ کوخوش رکھنے کے لئے اس خطے کی سپرپاور ’’روس‘‘سے دشمنی مول لئے رکھی جس کی بناپرروس نے بھارت کے ساتھ مل کرمشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایک اہم رول اداکیالیکن امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے نے پاکستانی قوم کوجھوٹی تسلیاں دے کربیڑہ غرق کردیا ۔امریکہ نے ایک سازش کے تحت روس کو افغانستان میں الجھا دیاجہاں پاکستان افغانستان کے گرم محاذمیں کود پڑا،اوردن رات مغربی میڈیامیں اس جنگ کو جہاداور حصہ لینے والوں کومجاہدین کے نام سے پکاراجانے لگا۔جب روس افغانستان میں شکست سے دوچارہوکرکئی ٹکڑوں میں بٹ گیاتو امریکہ پاکستان اورافغانستان کوبے سہاراچھوڑکر واپس بھاگ گیا۔نائن الیون کے بعدامریکہ نے انہی مجاہدین کودہشت گرد قراردے کر پاکستان کوان کی بیخ کنی کاحکم دیتے ہوئے پاکستان کودھمکی دی کہ یاتوتم ہمارے ساتھ ہویاتم ہمارے ساتھ نہیں۔پاکستان کو کہاگیا کہ تمہارے قرضے معاف نہیں ہوں گے توہمارے فاسق کمانڈونے تابعداری سے اسی تنخواہ پرکام کرنے کایقین دلایااور’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کانعرہ لگاکرپاکستان کی سرزمین کو پرائی آگ میں دھکیل کرجہنم بنادیا۔ امریکی طیاروں نے اسی پاکستان کی سرزمین سے ستاون ہزار سے زائدمرتبہ بمباری کرکے افغانستان کی سرزمین کا تورابورابنادیاجبکہ 87ہزار پاکستانیوں نے جام شہادت قبول کیا اور167بلین ڈالرکاخطیرنقصان بھی برداشت کرناپڑااوراس کے مقابلے میں امریکہ بہادرنے اپنی ناک کے نیچے بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے کرنے کی پوری سہولت فراہم کی۔ لہٰذاہماری وفاشعاری،اس یکطرفہ دوستی اور اس غیرمشروط محبت کاوہی نتیجہ نکلاجوامریکہ ہمیشہ سے اپنے وفاداروں کے ساتھ کرتاچلاآرہاہے۔ دیوتااب تلوارسونت کرہمارے سرپر کھڑاہماری تکہ بوٹی کرنے کے درپے ہے۔اگربھارت مسلسل ہمارے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے،امریکہ کی موجودگی میں افغانستان میں پاکستان کی سرحدوں پردہشت گردوں کے کیمپ چلارہا ہے، اس کے دہشت گردہمارے معصوم عوام کے گلے کاٹ رہے ہیں توہم سہمے ہوئے امریکہ بہادرسے شکائت کرتے ہیں کہ حضورہم توآپ کے داس ہیں،آپ کے تابعدار ہیں، آپ مہربانی فرماکربھارت کوسبق سکھائیں توامریکہ دیوتاکی طرح جلالی لہجے میں کہتاہے’’ارے مورکھوں! ہم بھارت کوکیسے منع کریں وہ ہماری سنتاکہاں ہے، ہماری طاقت کومانتاہی نہیں،ہم تواسے ہی حکم دے سکتے ہیں جوہماراوفاداراورخادم ہے‘‘۔اس لئے دکھ اس بات کا نہیں کہ امریکہ ہمارے ساتھ کیاکررہاہے، صدمہ تواس بات کاہے کہ ہم مسلسل75سالوں سے اسی سوراخ میں اپناسرداخل کررہے ہیں جہاں پہلے دن اس سانپ نے ہمیں کاٹاتھا۔کیااب بھی ہمارے پاس اورکوئی دوسرا راستہ نہیں؟ امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب ’’نوایگزٹ فرام پاکستان ‘‘میں لکھتاہے کہ ہم امریکن پاکستان کوتین وجوہات کی بنا پرنہیں چھوڑسکتے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کانیوکلیئرو میزائل پروگرام اتنابڑااور ایکسٹینسوہے کہ اس پرنظررکھنے کے لئے ہمیں مسلسل پاکستان کے ساتھ انگیج رہناپڑے گا۔دوسری وجہ، پاکستان دنیاکاوہ واحدملک ہے جس کے چین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں،چین پرنظررکھنے کے لئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہناضروری ہے۔ اورتیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کوبلکہ پوری دنیاکوڈی سٹیبلائزکرسکتی ہے۔پاک فوج پرنظررکھنے کے لئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔ وہ مزیدلکھتاہے کہ ہم نے72سال پہلے فیصلہ کیاتھاکہ پاکستان کوڈویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورپاکستان کواسلامی دنیاکوبھی لیڈکرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لئے ہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں وہ یہ کہ پاکستان کو اتناڈی سٹیبلائزکرو کہ ہم مینیج کرسکیں اورڈی سٹیبلائزڈاس طرح کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی لیڈروں کوخریدلیتے ہیں جن میں پولیٹیکل لیڈرز، سول بیوروکریسی کے افسران،میڈیاہاؤسز اورجرنلسٹ بھی شامل ہیں۔ڈینیل مارکے اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ پاکستانی لیڈرزخودکوبہت تھوڑی قیمت پربیچ دیتے ہیں،اتنی تھوڑی قیمت کہ انہیں امریکاجانے کاویزہ مل جائے یاان کے بچوں کواسکالرشپ مل جائے۔بس اتنی چھوٹی چیزپروہ پاکستان کے مفادات بیچنے پرتیارہوجاتے ہیں۔ عمران خان کی امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین مورواٹرزکے ساتھ مبینہ آڈیولیک میں منت ترلے کیوں ہورہے ہیں جبکہ سال پہلے عدم اعتمادآنے پرجیب سے خط نکال کر لہراتے ہوئے امریکہ کوذمہ دارٹھہرایاگیاتھا۔ کدھرگئی وہ سازش؟ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ یہ دونوں بھائی ایک ہی مکان میں رہائش پذیرتھے اوربڑابھائی بالائی منزل پراپنی زندگی کے مزے لے رہاتھا۔چھوٹابھائی جواپنے بڑے بھائی کی دھمکیوں سے پریشان تھا،اس کا چھوٹابیٹااپنے باپ کی یہ حالت نہ دیکھ سکااوراس نے اپنے گھرسے گزرتے ہوئے پانی کے پائپ اوربجلی کی سپلائی کوکٹوادیا۔ بڑے بھائی کے شدیدترین احتجاج کے باوجودجب معاملہ حل نہ ہواتواس نے اپنے پڑوسیوں کواعتمادمیں لیکرگاؤں کی پنچائت میں یہ معاملہ لے گیا۔باغی بیٹے نے پہلے توپنچائت کوماننے سے انکارکردیاجب لوگوں کے سمجھانے پر پنچائت پہنچا تواس نے سب کے سامنے یہ سوال رکھاکہ کیاتم اپنے گھروں میں مجھے مداخلت کاحق دے سکتے ہو؟سب نے یکسر انکار کرتے ہوئے اس بڑے بھائی سے معذرت کرلی اور اس طرح اس کاجہاں دماغ ٹھکانے آگیاوہاں اس نے معافی تلافی سے اپنا رویہ درست کرلیا۔اگرہم نے شروع دن سے اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہوتی توآج ہمیں 9مئی کا سیاہ وبدترین دیکھنانصیب نہ ہوتا۔