5 ملکی ٹاپ اسٹیبلشمنٹ ہنگامی رابطے

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن آج پیر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور مشیر امور قومی سلامتی اجیت دووال سے ملاقاتوں کے لیے ہندوستان آ رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک ہفتہ قبل ہی پچھلے اتوار کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ریاض پہنچ کرسعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے مشرق وسطی کے اسٹرٹیجک امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ سلیوان نے بھارت اور متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی مشیروں اجیت دووال اور شیخ طحنون بن زاید آل نہیان کے ساتھ بھی خطے کے حالات پر بات چیت کی جو اس دوران چار ملکی ٹاپ اسٹیبلشمنٹ میٹنگ میں شرکت کیلئے سعودی دارالحکومت پہنچے ہوئے تھے ، اس انتہائی حساس اجلاس میں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے بھی پانچویں ٹاپ اسٹیبلشمنٹ عہدیدار کی حیثیت سے شرکت کرنا تھی لیکن سعودی عرب اور اسرائیل میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ریاض نہ آ سکے ، اب ان کا ہنگامی دورہ بھارت اسی اہم ترین اجلاس کے دوران کئے گئے صلاح مشوروں کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے ، ایلی کوہن ایک معروف اسرائیلی اکائونٹنٹ اور سیاست دان ہیں جو 29 دسمبر 2022 ء سے اسرائیلی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس سے قبل وہ وزیر انٹیلی جنس اور وزیر اقتصادیات و صنعت کے طور پر کام کر چکے ہیں اور اسرائیل کی ٹاپ اسٹیبلشمنٹ سیکورٹی کابینہ کے موجودہ رکن بھی ہیں ۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی میٹنگ میں کچھ دیگر اہم ترین امریکی عہدیدار بھی موجود تھے۔ ان حساس ترین مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے کیلئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اگلے ماہ جون میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے اور اس دوران داعش کو شکست دینے کے لیے امریکی سرپرستی میں بنائے گئے عالمی اتحاد کو پھر سے فعال کرنے کیلئے بلائے گئے اجلاس میں شریک ہوں گے جو امریکہ اور سعودی عرب میں طویل کشیدگی کی وجہ سے حالیہ چند برسوں کے دوران کچھ غیر فعال سا ہو گیا تھا ۔سعودی عرب اس ساری انٹرنیشنل ایکٹیویٹی میں میں مرکز نگاہ بنا ہوا ہے لیکن اپنے ساتھ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی طرف سے شروع ہو جانے والی ان اچانک کرم نوازیوں پر حیران بھی ہے۔ بقول غالب مجھ تک ان کی بزم میں کب آتا تھا دور جام ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں قلم کہانی کے قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ امریکہ نے اپنے دائرہ اثر میں شامل اسلامی ممالک کا بازو مروڑ کرانہیں اپنی دوستی قبول کرنے پر مجبور کرنے والی پالیسی ناکام ہوتے دیکھ کر اب مشرق وسطی کے ممالک کو چین کی طرح مختلف بڑے تجارتی و معاشی مفادات دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ، عرب ممالک کو یہ ثمرات سعودی کرائون پرنس شہزادہ محمد بن سلمان اور امارات کے صدر شہزادہ محمد بن زاید آل نہیان کی طرف سے اختیار کی گئی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے ملنے شروع ہوئے ہیں ، اپنی نئی آزاد خارجہ پالیسی کے تحت دونوں ممالک نے چین ، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا تو پورے خطے کی جیو اسٹرٹیجک صورتحال میں ایک ڈرامائی موڑ آگیا جس کی وجہ سے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں بھارت ، امریکہ ، اسرائیل اور مغربی یورپ کے مفادات دائو پر لگ گئے حالیہ سہ فریقی التفات اپنی منڈی کو روس و چین کے ہاتھوں لٹنے سے بچانے کی ایک بڑی کوشش ہے تاہم یہ سب اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ دنیا اب بدل چکی ہے اور وہ دن گئے کہ جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ چین انتہائی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ایک حصے کے طور پر وسط ایشیا، یوریشیا ، مشرق وسطی ، افریقہ ، یورپ اور جنوبی امریکہ میں ریل ، روڈ اور بندرگاہوں کا ایک بہت بڑا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر رہا ہے ، پاکستان اور اس کے دوست اسلامی ممالک افغانستان ، ایران ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس سارے منصوبے میں انتہائی کلیدی اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے چین کی اس معاشی پیش قدمی کا راستہ روکنے کیلئے جوابی بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کا آغاز اسی خطے سے کیا ہے ، اس منصوبے کے تحت پہلے امریکہ ، اسرائیل ، امارات اور بھارت پر مشتمل ایک چارممالک کو معاشی کواڈ ہ بنایا گیا جس کا نام آئی 2 یو 2 رکھا گیا ، اس گروپ میں آئی ٹو انڈیا اور اسرائیل کے لیے اور یو ٹو امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے لیے ہے ۔ اب سعودی عرب کو پانچویں ملک کے طور پر اس ریجنل فورم میں شامل کیا جا رہا ہے اور خطے میں 5 ملکی ٹاپ اسٹیبلشمنٹ ہنگامی رابطے اسی سلسلے میں جاری ہیں ، چین اپنے پورٹس، ریل اینڈ روڈ نیٹ ورکس کے ذریعے افریقہ ، مشرق وسطی ، وسط ایشیا اور یورپ سے تجارتی بہائو کا ایک بڑا حصہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جس پر امریکہ اور بھارت کی اجارہ داری ہے ، بھارتی حکومت چین کی اس جدید شاہراہ ریشم کی اسکیم کو اپنی صنعتی ترقی اور بین الاقوامی تجارت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھ رہی ہے ، ابتدا میں اس نے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے وسط ایشیا اور پھر یورپ تک متبادل راہداری بنانے کی کوشش لیکن یہ منصوبہ جسے انٹرنیشنل نارتھ ساتھ ٹرانزٹ کوریڈورکا نام دیا گیا تھا ، متوقع کامیابی حاصل نہ کر سکا ، چین نے ایران کو اربوں ڈالر کا جو بہت بڑا ترقیاتی وتجارتی پیکج دیا ہے اس کے بعد تو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کا راستہ روکنے کیلئے تہران کو استعمال کرنے کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ ( جاری ہے)