اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیارمطلق نہیں ہے،جواز دینا ضروری ہے، قمرزمان کائرہ

اسلام آباد( اے بی این نیوز   )وزیراعظم کے مشیر برائے کشمیروگلگت بلتستان قمرزمان کائرہ نے کہاہے کہ سیاسی فیصلوں سے ملکی سیاست کارخ متعین کرنے کی کوششیں اورتجربات ماضی میں ناکام ثابت ہوچکے ہیں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیارمطلق نہیں ہے بلکہ اس کیلئے جواز دینا ضروری ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بے یقینی اورہیجان کی کیفیت حادثاتی نہیں بلکہ پیداکیاگیاہے تاکہ اس کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا جائے، ملک کا ہرشہری متفکرہے کہ ملک کس طرف جارہاہے اورہماراکیا بنے گا۔ انہوں نے کہاکہ چارٹرآف ڈیموکریسی کے ذریعہ اس ایوان نے پرامن انتقال اقتدار کی راہ کا تعین کیا مگر اس وقت عمران خان نے یہ راستہ خود بندکردیا، وہ اپنی مرضی اورشرائط پرالیکشن چاہتے ہیں، چند ماہ میں بعض اہم عہدوں سے لوگ فارغ ہورہے ہیں اسلئے انہیں الیکشن کی جلدی ہے۔انہوں نے کہاکہ عدالت نے 90 روز میں الیکشن کرانے کی حد خود پار کی ہے، اسی بنچ کے ججز صاحبان نے کہاتھا کہ پہلے یہ دیکھنا چا ہیئے کہ اسمبلیاں درست طریقے سے تحلیل ہوئی تھیں یانہیں، اس سے قبل بلوچستان، پنجاب اورکے پی کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کی بحالی کے احکامات عدلیہ دے چکی ہے اسلئے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیارمطلق نہیں ہے بلکہ اس کیلئے جواز دینا ضروری ہے۔ دنیا میں کوئی اختیارغیرمشروط نہیں ہوتا، غیرمشروط اختیارسے جرائم جنم لیتے ہیں۔قمرزمان کائرہ نے کہاکہ آئین ایک انتظام ہوتا ہے جو ٹکڑوں کوجوڑکرایک نظام کی تشکیل میں مدد فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ عدلیہ نے پورامقدمہ چلوایا، اکثریت کے فیصلے کو اقلیت سے تبدیل کیاگیا، فریقین کوسننا گوارانہیں کیاگیا، اسدعمر کوعدالت میں بلایاگیا جس نے غلط بریفنگ دی لیکن اس کے باوجوداس کی تعریف ہوئی دوسری جانب ہمارے وکلاء کی بات نہیں سنی گئی، ہمارے وکلاء 6 دن بیٹھے رہے، ہم ان کی کس بات پریقین کرے۔انہوں نے کہاکہ اگرہماری کارگردگی پرچیک عدلیہ کرسکتی ہے توپارلیمان بھی عدلیہ پرچیک رکھ سکتی ہے، توہین عدالت پرسزا سے عدلیہ کااحترام قائم نہیں ہوسکتا، عدلیہ کا احترام ان کے فیصلوں کی بنیادپرہوتاہے۔مانیٹرنگ ججز کا ایک اوررحجان سامنے آرہاہے، تحقیقاتی معاملات میں بھی نگرانی کی جارہی ہے، عدلیہ اپنے اختیارات انتظامیہ تک پھیلارہی ہے جو ہمیں قابل قبول نہیں ہے،آدھے ججز صاحبان ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملارہے، سیاسی فیصلوں سے ملکی سیاست کارخ متعین کرنے کی کوشش ہوتی ہے یہ تجربہ ماضی میں ناکام ہوچکاہے۔نوازشریف کوبے بنیاد سزا دی گئی تو کیااس سے مسائل حل ہوئے؟ یوسف رضاگیلانی کی نااہلی سے کیا مسائل حل ہوئے، عدلیہ آج ایک بارپھر بحران پیداکررہی ہے، کیا دونوں اسمبلیاں جائز طریقے سے توڑی گئی تھیں، آئین میں لکھا ہے کہ وزیراعلیٰ جبر سے نہیں بلکہ اپنے ذہن کو آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اسمبلی توڑ سکتاہے۔ قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کوایک سرکلرکے ذریعہ ختم کردیاگیا، آگے چل کراپنے فیصلے میں قاضی فا ئز عیسٰی کے فیصلے کا ذکرکیا اوراسے سیٹ اسائیڈ کیا، پھرفرمائشی بنچ بناکر5 منٹ کے سماعت سے اس فیصلے کوختم کردیاگیا۔ شہید بے نظیربھٹو نے آئینی عدالت اورججز کاتقررپارلیمان کے ذریعہ کرنے کا مطالبہ کیاتھا جو آج درپیش مسائل کا واحد حل ہے۔