قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے ارشد شریف قتل کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ طلب کرلی

اسلام آباد(اے بی این نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے ارشد شریف قتل کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ طلب کرلی۔ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس جمعرات کو کمیٹی کی چیئرپرسن و رکن قومی اسمبلی جویریہ ظفر کی زیر صدارت پیمرا ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے جویریہ ظفر نے کہا کہ ابھی تک ارشد شریف قتل کے حوالے سے کمیٹی کو کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بل پر بھی غور کیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں پر تشدد کی مذمت کی۔ جویریہ ظفر نے کہا کہ پولیس کی جانب سے صحافیوں کو ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکا گیا ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں پر تشدد کے معاملے پر وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جانے سے صحافیوں کو روکا گیا، صحافیوں پر تشدد کے واقعہ کی رپورٹ وزیر داخلہ نے طلب کرلی ہے۔ کمیٹی کی رکن ناز بلوچ نے کہا کہ صحافیوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہئے تاکہ صحافی خود کو غیر محفوظ تصور نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین صحافیوں کے خلاف بھی مہم چلائی جاتی ہے اس پر بھی بات ہونی چاہئے۔ اراکین کمیٹی نے ڈراموں اور ٹی وی اشتہارات میں معاشرتی اقدار کے منافی مواد پر تشویش کا اظہار کیا۔ وفاقی سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد نے اجلاس کو بتایا کہ ہر صوبے میں کونسل آف کمپلینٹ موجود ہے، شکایت آئے تو کونسل آف کمپلینٹ سننے کی مجاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامے سینسر کرنے کا کوئی بورڈ موجود نہیں صرف فلم سنسر بورڈ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1972ءسے فلم کو سنسر کرنے کی فیس 250 روپے ہے اور اب اس کو بڑھا کر ایک ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔ وفاقی سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ ڈراموں کو سنسر کرنے کے حوالے سے اگر حکومت قانون سازی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اس موقع پر جویریہ ظفر نے کہا کہ ڈرامہ کے آن آیئر آنے سے پہلے اس کے مواد کو دیکھا جانا چاہئے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈراموں کو سنسر کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین نے اجلاس کو بتایا کہ اے آر وائی کے ڈرامہ ”جلن“ پر پابندی لگائی، ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے دیا۔ سپریم کورٹ گئے ہیں، فیصلہ محفوظ ہے، کچھ دنوں میں فیصلہ آ جائے گا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ 27 اشتہارات جو معاشرتی اقدار کے خلاف تھے، ان پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہائوسز کو عدالتوں سے حکم امتناع مل جاتا ہے۔