اہم خبریں

تمباکومصنوعات کی غیرقانونی تجارت روکنے کا حکومتی اقدام لائق تحسین ہے،ماہرین صحت

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ماہرین صحت نے پاکستان میں تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایات کو سراہتے ہوئے کہا ہےکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نےغیر قانونی تجارت کو 15 فیصد سے اوپرجانے سے روک رکھا ہے،مزید فوائد حاصل کرنےکیلئے اس نظام کو تمام کمپنیوں میں لاگو کیا جانا چاہیے۔جمعہ کوسوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ(سپارک)کی جانب سے جاری بیان میں صحت کےکارکنوں نے بتایا کہ ہر سال بجٹ سے پہلے تمباکو کی صنعت غیر قانونی تجارت کی شرح کو بڑھاچڑھاکر بتاتی ہےتاکہ پالیسی سازوں کو مہنگائی کی شرح کے مطابق تمباکو ٹیکس بڑھانے سے باز رکھا جا سکے۔کنٹری ہیڈ کمپین فار ٹوباکو فری کڈز ملک عمران نے کہا کہ تمباکو سے پیدا ہونیوالی بیماری سالانہ 6 ارب سے زائد کا معاشی بوجھ بنتی ہیں جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6فیصد ہے۔ انہوں نےکہاکہ ایک ایسی صنعت جوصحت عامہ اور معیشت کواس قدر بے دریغ نقصان پہنچا رہی ہے،ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ تمباکو کنٹرول کا کوئی بھی قدام پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے۔ انہوں نےکہا کہ ہر بجٹ کے سیزن میں تمباکو کی صنعت غیرقانونی تجارت کارونا روتی ہے تاکہ تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافہ نہ ہو یہ چال تمباکو کی صنعت لوگوں کوانڈر رپورٹنگ سے ہٹانے کے لیے استعمال کرتی ہے، یہ کمپنیاں اپنی پیداوار کو کم رپورٹ کرتی ہیں اور پھر اپنی غیر رپورٹ شدہ مصنوعات کو غیر قانونی مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے غیرقانونی سگریٹ پاکستان کے بارے میں ایک تازہ ترین تحقیق کے نتائج کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا کہ سگریٹ کے غیرقانونی پیکٹوں کا تناسب تقریباً 15فیصد ہے جو تمباکو کمپنیوں کی بتائی گئی شرح سے کہیں کم ہے۔ ملک عمران نےکہا کہ تمباکو کی صنعت کو اضافی ٹیکس ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ انہیں کبھی بھی اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی۔انہوں نے کہاکہ تمباکو کمپنیوں نے ٹیکس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا گیا قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ سےایکسائز ٹیکس کا حصہ 51.6% پربرقرار ہے، جو کہ 70% کے منظور شدہ بینچ مارک سے کم ہے۔ سابق ٹیکنیکل ہیڈٹوبیکو کنٹرول سیل وزارت صحت ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام نے کہا کہ تمباکو پاکستان میں سب سے بڑا خاموش قاتل ہےکیونکہ ہر سال 170,000 سے زائد افراد تمباکو کے استعمال کیوجہ سےموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قیمتوں میں اضافہ پیداوار اور استعمال میں کمی لاتا ہے جس سے صحت کی لاگت کا بوجھ کم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فروری 2023 میں ایف ای ڈی میں اضافے کے بعد سے مالی سال 2022-23 میں سگریٹ کی اعلان کردہ پیداوار میں پچھلے سال کےمقابلے میں 31.7 فیصد کمی آئی ہے جبکہ حکومت نے اضافی 11.3 بلین ایف ای ڈی ریونیوحاصل کیا گیا جبکہ اضافی 4.4 بلین ویلیو ایڈڈٹیکس ریونیو حاصل ہوا۔ یہ اضافی 15.7 بلین ریونیو ہماری جی ڈی پی کا 0.201 فیصد بنتا ہےجو پاکستان جیسی جدوجہد کرنےوالی معیشت کیلئے ایک اہم سرمایا ہے۔ پروگرام منیجر اسپارک خلیل احمد ڈوگر نےکہا کہ تمباکو کی صنعت کا دعویٰ ہےکہ وہ پاکستان کی معاشی پریشانیوں کاحل پیش کرنےکیلئے جدید ترین تحقیق کرتی ہے،حقیقت میں تمباکو کی صنعت کی واحد جدت اسکی قاتل مصنوعات ہیں جو پاکستان کی صحت اورمعیشت کو خطرے میں ڈال رہی ہیں یہ سوچنا ایک خام خیالی ہے کہ تمباکو کی مصنوعات کی بڑی مقدار میں فروغ ہوتے ہوئے پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کاٹریک اینڈ ٹریس سسٹم حکومت کو ٹیکس چوری اور غیرقانونی تجارت کے معاملے سے نمٹنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرسکتا ہے، تاہم اسے سگریٹ بنانے والی دیگر تمام کمپنیوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے جوفی الحال اس سسٹم سے منسلک نہیں ہیں ایسا ہونےکے بعد تمباکو کی صنعت کیلئے ایک اورفریب بے نقاب ہو جائے گا۔

متعلقہ خبریں