نماز باجماعت اداکیجئے

حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: ’’کسی بستی میں یا دیہات میں تین آدمی ہوں اور وہ نماز باجماعت نہ پڑھتے ہوں تو ان پر شیطان یقیناً قابو پا لے گا، لہٰذا تم جماعت کی پابندی کو اپنےپرلازم کر لو، کیونکہ بھیڑیااسی بھیڑ کو اپنا لقمہ بناتا ہے جو گلہ سے الگ دور رہتی ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓسےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’باجماعت نمازپڑھنااکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری) اس حدیث سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکیلے پڑھنے والے کی نماز بالکل کالعدم نہیں ہے وہ بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن ثواب میں چھبیس درجہ کم رہتی ہے اور یہ بھی یقیناً بہت بڑا خسارا اور بڑی محرومی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جو شخص چالیس دن تک ہر نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اس طرح کہ اس کی تکبیر اولیٰ بھی فوت نہ ہو تو اس کے لئے دو براء تیں لکھ دی جاتی ہیں ایک آتش دوزخ سے برأت اور دوسری نفاق سے برأت۔‘‘ (جامع ترمذی) مطلب یہ ہے کہ کامل ایک چلہ ایسی پابندی اور اہتمام سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کہ تکبیر اولیٰ بھی فوت نہ ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و محبوب عمل ہے اور بندہ کے ایمان و اخلاق کی ایسی نشانی ہے کہ اس کے لئے فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس کا دل نفاق سے پاک ہے اور یہ ایسا جنتی ہے کہ دوزخ کی آنچ سے بھی وہ کبھی آشنا نہ ہو گا‘ اللہ کے بندے صدق دل سے ارادہ اور ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ سے توفیق کی امید ہے، کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے‘اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عمل خیر کی چالیس دن تک پابندی خاص تاثیر رکھتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح(یعنی پورے آداب کے ساتھ) وضو کیا، پھر وہ(جماعت کے ارادے سے مسجد کی طرف )گیا، وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہیں اور جماعت ہو چکی، تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو بھی ان لوگوں کے برابر ثواب دے گا جو جماعت میں شریک ہوئے اور جنہوں نے جماعت سے نماز ادا کی، اور یہ چیز ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہو گی۔‘‘(سنن ابی دائود) مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو جماعت کی پابندی کرتا ہے اور اس کیلئے پورا اہتمام کرتا ہے اس کو اگرکبھی ایسا واقعہ پیش آ جائے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق اچھی طرح وضو کر کے جماعت کی نیت سے مسجد جائے اور وہاں جا کر اسے معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت اور اس کے اہتمام کی وجہ سے اس کو جماعت والی نماز کا پورا ثواب عطا فرمائیں گے، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کی کسی دانستہ کوتاہی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس کی جماعت فوت نہیں ہوئی ہے ‘بلکہ وقت کے اندازہ کی غلطی یا کسی ایسی ہی وجہ سے وہ بے چارہ جماعت سے رہ گیا ہے، جس میں اس کا قصور نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: منافقوں پر کوئی نماز بھی فجر و عشاء سے زیادہ بھاری نہیں ہے، اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا اجر و ثواب ہے اور کیا برکتیں ہیں تو وہ ان نمازوں میں بھی حاضر ہوا کرتے اگرچہ ان کو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا (یعنی اگر بالفرض کسی بیماری کی وجہ سے وہ چل کر نہ آ سکتے تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کے آتے…اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا) کہ میرے جی میں آتا ہے کہ (کسی دن) میں مؤذن کو حکم دوں کہ وہ جماعت کیلئے اقامت کہے، پھر میں کسی شخص کو حکم دوں کہ (میری جگہ) وہ لوگوں کی امامت کرے اور خود آگ کے فتیلے ہاتھ میں لوں اور ان لوگوں پر(یعنی ان کے موجود ہوتے ہوئے ان کے گھروں میں ) آگ لگا دوں جو اس کے بعد بھی(یعنی اذان سننے کے بعد بھی )نماز میں شرکت کرنے کیلئے گھروں سے نہیں نکلتے۔ (صحیح بخاری) اللہ اکبر! کتنی سخت وعید ہے اور کیسے جلال اور غصہ کا اظہار ہے، رسول اللہﷺ کی طرف سے ان لوگوں کے حق میں جو آپ کے زمانے میں جماعت میں غیر حاضر ہوتے تھے` اور اسی بارے میں رسول اللہﷺ کا اسی طرح ایک لرزہ خیز ارشاد حضرت اسامہ ؓ کی روایت سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ صاف و صریح ہے‘ اس کےا لفاظ یہ ہیں۔’’ لوگوں کو چاہئے کہ وہ جماعت ترک کرنے سے باز آ جائیں، نہیں تومیں ان کے گھروں میں آگ لگوا دونگا۔‘‘ یہ تارکین جماعت جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے اتنے سخت غصہ کا اظہار فرمایا، خواہ عقیدے کے منافق ہوں یا عمل کے منافق(یعنی دینی اعمال میں سستی اور کوتاہی کرنیوالے) بہر حال اس وعید اور دھمکی کا تعلق ان کے عمل’’ ترک جماعت‘‘ سے ہے… اسی بناء پر بعض ائمہ سلف( جن میں سے ایک امام احمد بن حنبلؒ بھی ہیں)اس طرف گئے ہیں کہ ہر غیر معذور شخص کیلئے جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے۔ یعنی ان کے نزدیک جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح اس کو جماعت سے پڑھنا ایک مستقل فرض ہے اور جماعت کا تارک ایک فرض عین کا تارک ہے‘ لیکن محققین احناف نے جماعت سےمتعلق تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا درجہ واجب کا ہے اور اس کا ترک گنہگار ہے اور مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ایک طرح کی تہدید اور دھمکی ہے۔واللہ اعلم