آزادی کے موقع پر انگریز ہندو گٹھ جوڑ

دوسری جنگ عظیم کے فورا ً بعد اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا، سکیورٹی کونسل میں دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کو دنیا کے ہر فیصلے کو رد کرنے کا اختیار ویٹو دیا گیا تھا،در پردہ سیاسی نو آبادیات اور ملکوں کو آزادی دیتے وقت ان بڑی قوتوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا سیاسی اقتصادی نظام تشکیل دیا تھا۔نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات پیدا کئے گئے تھے۔پاکستان، بھارت سمیت ان میں سے بیشتر غلام ممالک مسلح جدوجہد کی بجائے ایک خاص حکمت عملی نظام کے تحت آزاد ہوئے تھے.جس میں انگریز دور ہی میں تشکیل پانے والی انتظامیہ، پارلیمنٹ مقننہ‘ عدلیہ اور فوج تھی دوسری جنگ عظیم کے صرف ساڑھے تین مہینے بعد دسمبر 1945 ء اور جنوری 1946 ء میں 1935 ء کے قانون ہند کے تحت متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے تھے ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کی نشستیں مسلمان اور ہندو آبادی کے تناسب سے طے کی گئیں تھیں البتہ یہ ضرور تھا کہ کانگریس اور مسلمان نشستوں پر اپنے اپنے ہندو اور مسلمان امیدوار کھڑی کر سکتے تھیں۔یوں ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 30 کی 30 مسلم نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلیوں کی 90 فیصد مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات کے بعد متحدہ ہندوستان میں عبوری حکومت قائم ہوئی جس کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جبکہ دیگر مرکزی وزرا کے علاوہ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے اور وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پائیل تھے،نہرو کابینہ میں کوئی بھی وزیر خارجہ نہیں تھا،3 جون 1947 ء کے اعلان آزادی کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ نے 18 جولائی 1947 ء قانون آزادی ہند کے عنوان سے 1935 ء کے قانون ہند جو ایک آئین کی حیثیت رکھتا تھا اس میں یہ ترمیم کی تھی،جس میں دیگر نکات کے علاوہ آزادی کے بعد ایک سال تک پاکستان اور بھارت پر کچھ شرائط عائد کی گئی تھیں ۔
نمبر 1 ۔ چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کے بعد سے ایک سال تک دونوں ملکوں کی حیثیت ڈومینین سٹیٹ کی ہوگی اور یہ دونوں ممالک 1935 ء کے قانونِ ہند کو فوری اور ضروری ترامیم کے ساتھ ایک سال تک نافذ العمل رکھیں گے اور یہ ضروری یا فوری نوعیت کی ترامیم بھارت اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے بجائے دونوں ملکوں کے گورنر جنرل کریں گے۔ نمبر 2۔دونوں ملک اگر چاہیں تو ایک سال بعد اپنا نیا آئین بنالیں یا 1935 ء کے قانون کو ہی نافذ العمل رکھیں یا اس میں ضرورت کے مطابق ترامیم کر کے نافذ العمل رکھیں۔ بھارت نے آزادی کے بعد فورا بعد اپنا آئین بنایا۔ پاکستان کا پہلا پارلیمانی آئین 1956 ء میں بنا۔ چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتح ہونے کے باوجود برطانیہ بہت کمزور ہو چکا تھا اور بہت زیادہ اپنے اتحادی امریکا پر انحصار کر رہا تھا۔اس لیے یہ ایک ایسا موقع تھا۔ پاکستانی افواج کے کمانڈرانچیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈیگلس گریسی کی مخالفت کے باوجود قائد اعظم نے جنگ آزادی کشمیر میں کشمیری مجاہدین کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان اور قبائلی مجاہدین کے ساتھ بھر پور کارروائی کی اور آدھا کشمیر آزاد کروا لیا۔دوسری جانب نہرو نے بھی مسلمان نوابیں کی ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور بھوپال پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے شروع ہی سے پرانے جاگیر دارانہ نظام کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت تبدیل کر کے نافذ رکھا،18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 1935 ء کے قانون ہند کی ترامیم میں یہ بھی طے تھا کہ ان ریاستوں کے راجے مہاراجے خوانین اور نوابین برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد اپنے عوام کی مرضی، ریاست کی سرحدی قربت وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔ نظام حیدر آباد نے ریاست کو آزاد رکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بھارت نے آزادی کے فوراً بعد حیدر آباد پر میجر جنرل جے این چوہدری کی سربراہی میں ایک فوج بھیج کر قبضہ لیا. یہی جنرل جے این چوہدری اس کے بعد بھارتی فوج کے آرمی چیف ہوئے۔ ریاست بھوپال جس سے پاکستان کے عظیم سائنس دان ہمارے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق ہے اس ریاست پر بھی 1948 ء میں بھارت نے بزور قوت قبضہ کیا۔ اس کے مسلمان نواب پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔اس کے نواب محمد مہتاب خان جی نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا مگر 1948 ء ء ہی میں اس پر بھی بھارت نے بزور طاقت قبضہ کر لیا۔جموں کشمیر کا جھگڑا بھی اسی وقت شروع ہوا۔یہاں آبادی کی اکثریت نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ریاست جموں و کشمیر کو دنیا سے ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستانی حدود سے آگے جاتے ہیں وہاں کے عوام کی اکثریت آج تک بھی پاکستان ہی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے،مگر انگریز ہندو گٹھ جوڑ پہلے ہی سے تھا۔یہی وجہ تھی کہ پہلے مرحلے میں ریڈ کلف ایوارڈ میں پنجاب کی تقسیم میں مشرقی پنجاب کے اضلاع گردد اسپور، فیروز پور اور زیرہ نا انصافی کرتے ہوئے بھارت کو دے دیئے گئے اور پھر ہندوستان میں آزادی سے قبل پنڈت جواہر لال نہرو کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پائیل اور ماسٹر تارا سنگھ کے مسلح جتھوں نے ان مسلم اکثریت کے علاقوں میں قتل عام کر کے لاکھوں مسلمانوں کو پاکستانی علاقوں میں دھکیل دیا۔ واضح رہے کہ انگریز جنرل پاکستان کی جانب سے جنگ کے خلاف تھے،مگر قائد اعظم کی زبردست حکمت عملی تھی کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ پاکستانی قبائلی لشکر تھے،جنگ میں ریاست، جموں کشمیر، گلگت بلتستان کے جو علاقے آزاد ہو رہے تھے ان کے جوان بھی شامل ہو رہے تھے،مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے مسلح دستے تھے۔ سوات آرمی تھی ، فرقان فورس، گلگت اسکائوٹس اور فرنٹیئر فورس کو شامل کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں مجاہدین، شہدا اور غازیوں نے شجاعت و بہادری کی وہ داستانیں رقم کیں جو تا قیامت یاد رہیں گی۔انگریز نے کانگریس سے مل کر پہلے یہ کوشش کی تھی کہ بھارت کی طرح پاکستان کا گورنر جنرل بھی لارڈ مائونٹ بیٹن ہو مگر اس کو قائداعظم نے تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم نے بہت جرات کے ساتھ پہلی بھارت پاکستان جنگ لڑی،مسلمان فوجی افسران نے ان کا حکم مانا، مجاہدین اور قبائلی لشکر نے بہت بہادری سے جنگ لڑی اور آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے،جنگ کے آغاز پر مہاراجہ کی ریاستی فوج نے خصوصا ً جموں کے علاقے میں ایک سازش کے تحت مسلمان کشمیریوں کا قتل عام کروایا کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب فیصد90 اور جموں میں 60فیصد تھا۔ راجہ ہری سنگھ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو آزاد کشمیر کے علاقوں تک لے جائیں گے اس مقصد کے لیے بڑے فوجی ٹرک تیار کئے گئے جو جموں کے میدان میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ اٹھاتے اور چند میل دور جنگل میں چشمے کے قریب فائرنگ کر کے ہلاک کر دیتے۔ کشمیر پر یہ پہلی پاک بھارت جنگ 22 اکتوبر 1947 ء سے 5 جنوری 1949 ء تک تقریباً ایک سال دو ماہ پندرہ دن جاری رہی اور پھر بھارتی وزیر اعظم نہرو اقوام متحدہ گئے اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق رائے شماری کروانے کی قرارداد کی منظوری اور مقبوضہ بھارتی جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان سیز فائر لائن طے ہونے پر یہ جنگ بند ہوئی۔