مدارس ،میکالے،نصاب تعلیم اور مفتی تقی عثمانی

صدر جامعہ دارالعلوم کراچی، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے گزشتہ ہفتے دارالعلوم کراچی کے طلبہ سے خصوصی خطاب کرتے ہوے کہا’’افسوس یہ ہے کہ اس وقت تمام نظام ہائے تعلیم کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے‘ علمِ دین کا مقصود قبر کے کنارے سے شروع اور اس کا اصل فائدہ قبر میں جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے…انھوں نے کہا کہ قرآن کریم نے ہمارا مقصدِ زندگی جو بتایا وہ صرف پیٹ بھرنا نہیں، بلکہ دوسروں کو نفع پہنچانا ہمارے وجود کا اصل مقصد بتایا گیا ہے۔(کنتم خیر امۃ اخرجت للناس)مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ دنیاوی علوم کی بھی ہم بے قدری نہیں کرتے، لیکن جو بھی دنیاوی علم حاصل کرے وہ دوسروں کو نفع پہنچانے کی نیت سے کرے۔
کاش لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے رکھوالے،ٹیچرز،پروفیسرز،بھی اپنے طلبا وطالبات کو ایسی باتیں سمجھاتے ،افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا، شائد اسی کا نتیجہ ہے کہ قومی خزانے کو جب، جب، جس،جس نے بھی لوٹا،وہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کا ہی سند یافتہ تھا،پاکستان کے قومی خزانے ،نظریاتی اور جغرافیائی سر حدات،اور اعلیٰ مشرقی روایات کو سب سے زیادہ نقصان لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے سند یافتگان نے ہی پہنچایا، ’’تعلیم‘‘ انسان کو پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے،مگر یہ کیسی تعلیم ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد انسان ملک سے محبت کرنے کی بجاے،ملک چھوڑ کر بھاگنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے؟ میں بہت پیچھے نہیں جاتا،صرف 1971ء سے لے کر9 مئی 2023 ء تک کے واقعات پر غور کر لیں،تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے سند یافتگان کے کالے کرتوتوں سے تاریخ شرمندہ نظر آے گی،دینی مدارس کا نصاب تعلیم…اور اس نصاب تعلیم کے رکھوالے ،علما،اساتذہ او ر اکابرین نے بہرحال اپنے طلبا کی نصاب تعلیم کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کی ،انھیں امانت و دیانت،حب الوطنی،توحیدوسنت،حلال وحرام میں تمیز کرنا سکھایا ،یہ مدارس کا نصاب تعلیم ہی ہے کہ جو بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پہ شفقت کرنے کا درس دیتا ہی،ماں،باپ کا احترام ،ماں باپ دونوں بوڑھے ہو جائیں،یادونوں میں سے ایک ،ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن پاک نے دیا،بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے رکھوالے ، وی سی ‘ پروفیسرز،اور سیکورٹی عملے نے اپنی ہی طالبات کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا،انسان اس کی داستان سن لے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے،یہ گند اور بدکرداری صرف بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں،بلکہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کی رکھوالی ہر یونیورسٹی اس حوالے سے شرمندہ ، شرمندہ سی نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی ، قائداعظم یونیورسٹی ،اور ملک کی دیگر یونیورسٹیز کے چانسلرز ،وائس چانسلرز اپنے طلبا وطالبات کی اخلاقی تربیت کے لئے تیار کیوں نہیں ہیں؟ذرہ سا نہیں ،بلکہ اس نکتے پر خوب اچھی طرح سوچنے کی ضرورت ہے،جامعہ دارالعلوم کے صدر مفتی تقی عثمانی نے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ دین کے طالب علم کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ الحمد للہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسے علم سے وابستہ کیا جو صرف قبر تک کام نہیں آتا بلکہ قبر سے لے کر آخرت کی منزلوں میں بھی کام آتا ہے،طلبِ علم، میں کچھ مشقت جھیلنی پڑتی ہے، مشقت کے بغیر دنیا کا علم بھی حاصل نہیں ہوتا،اکابر کے حالات پڑھنے چاہئیں کہ انہوں نے کتنی مشقت سے علم حاصل کیا، حضرت اقدس مفتی محمد شفیع ؒ نے طالب علم کی یہ تعریف بیان فرمائی کہ طالب علم وہ ہے جس کے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی علمی مسئلہ چکر کاٹتا رہے، یہ علم اتنا سستا نہیں ہے،بلکہ قربانی مانگتا ہے، لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ مرسیڈیز گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جہازوں میں اعلیٰ درجات میں سفر کرتے ہیں…بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ نعمتیں دی ہیں، لیکن یہ کب ملیں؟ آپ نے ہمارا یہ آخر کا زمانہ دیکھا ہے، ابتدائی زمانہ نہیں دیکھا، دونوں زمانوں میں بڑا فرق ہے ، تب تو دارالعلوم میں بھی اس طرح کی سہولیات نہیں تھیں، علم عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی استاد کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ گھول کر پلادے، لیکن اللہ تعالیٰ نے استاد کو ذریعہ بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی طلب کی برکت سے علم عطا فرمائیں گے،کوشش کے باوجود سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ضروری نہیں کہ آپ کو ایک ایک جزو یاد ہوجائے، لیکن مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس سے مزاج بن جاتا ہے، آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، علم ہو اور عمل نہ ہو تو وہ علم پھر رفتہ رفتہ چلا جاتا ہے۔ انھوں نے فرمایا ، ایک مقولہ ہے کہ علم اور عمل دو بھائی ہیں، ایک بھائی علم، دوسرے بھائی عمل کو پکارتا ہے، اگر اس نے جواب دے دیا تو وہ ٹھہر جاتا ہے، لیکن اگر اس نے جواب نہیں دیا تو وہ چلا جاتا ہے، بغیر عذر کے نماز با جماعت کو ترک کرنا ایک زہر ہے‘ علم بغیر عمل کے علم ہے ہی نہیں‘ اتباعِ سنت کے بغیر صحیح معنی میں علم کا حاصل ہونا مشکل ہے‘۔ سب سے بڑی سنت کی اتباع یہ ہے کہ اپنی ذات سے کسی کو ادنی تکلیف نہ پہنچے ۔