’’مولانا‘‘کا درد دل اور ریاست سے سوالات

(گزشتہ سے پیوستہ) 26 !ادارے ہیں انٹیلی جنس کے، کہاں غائب ہیں؟ اتنا بڑا انٹیلی جنس فیلیر بے، بیگناہوں کو تنگ کرنے لیے اپنی کارروائی ڈالتے ہیں، کاغذی کارروائی بھرتے ہیں۔ مجھے کیا اعتماد دلا سکیں گے کہ ریاست میری جان کی حفاظت کر سکتی ہے یا نہیں؟ صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرنا اور میری جان و مال کی حفاظت نہ کرنا!مجھے شکایت ہے، مجھے کرب ہے، میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقاء اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں، لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے!پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے، جو ریاست کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، جو اس حفاظت کے مسل ہیں، اسی کے لیے وہ تنخواہیں لے رہے ہیں، وہ کدھر ہیں آج؟ کب وہ ہمارے شکوں کا ازالہ کریں گے؟ کب وہ ہمارے زخموں کا مرہم بنیں گے؟ کب وہ ہمارے مستقبل اور ہمارے آنے والی نسلوں کی حفاظت کا نظام بنائیں گے؟ یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس پر ہم نے قومی سطح پر غور کرنا ہے، تمام مکاتب فکر کو بیٹھنا ہے، اور ان شااللہ ہم بلائیں گے سب کو، پی ڈی ایم کو دوبارہ بلانا پڑے گا، سیاسی جماعتوں کو اکٹھا بیٹھنا پڑے گا اور ملک کے لیے سوچنا پڑے گا ،ان شااللہ یہ ہمارا پروگرام ہے اور میں عنقریب اس حوالے سے ہمہ جہت رابطے بھی کروں گا اور ذمہ داران کے ساتھ گفتگو بھی کروں گا اور یہ ساری صورتحال ان کے سامنے رکھوں گا کہ ہم سالہا سال سے جس کرب میں ہیں اور جس کرب کا ہم اظہار کر رہے ہیں، اس کا اظہار جرم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں کرب میں مبتلا کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں!یہ وہ ساری چیزیں ہیں جس پر ہم نے قومی سطح پر غور کرنا ہے، ہم بری طرح دہشت گردی کا شکار ہیں، لیکن دہشت گردی کا خاتمہ مقصود ہونا چاہیے، دہشت گردی کے نام پر تجارت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی!جرم کا خاتمہ چاہیے، جرم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے اور ہم اس حوالے سے حساس ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کرب کو چھپائیں لیکن ایسے حالات آجاتے ہیں اور کیوں آجاتے ہیں،کیوں آنے دئیے جاتے ہیں؟ کہیں قوم پھٹ ہی نہ پڑے، ہم مصلحت کے تحت بہت باتیں نہیں کرنا چاہتے لیکن بالآخر کرنی پڑیں گی۔
مولانا نے کہا! جمعیت علماء اسلام امن کی جماعت ہے، تحمل اور برداشت کی جماعت ہے، لیکن تحمل اور برداشت کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے، میں اب بھی کارکنوں سے یہی کہوں گا کہ تحمل اور برداشت کا دامن نہ چھوڑیں ان سازشوں کو ناکام بنائیں اور ہمارے کارکنوں نے ہر دور میں ہر محاذ پر ہمیشہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور اب بھی پاکستان میں سب سے زیادہ بہتر انداز کا کارکن اللہ رب العزت نے جمعیت علماء اسلام کو نصیب کیا ہے ،جس پر میں لاکھ فخر کروں تب بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ جمعیت علماء اسلام کی حفاظت فرمائے، امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستانی قوم کی حفاظت فرمائے، تمام دینی اور اسلامی اداروں کی حفاظت فرمائے، اسی کے لیے ہم نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے موقف کے بعد جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری کے موقف کا جائزہ لیتے ہیں ‘ مولانا عبدالغفور حیدری نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’باجوڑ کا واقعہ ایک انسانی المیہ ہے‘ یہ اک قیامت تھی جو ہم پر گزر گئی‘ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں سے باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں اور راہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع تھی اور اس ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں جمعیت کے20 سے زائد علماء اور سیاسی کارکنان شہید ہوئے‘ ان واقعات کے خلاف علاقے میں احتجاج بھی ہوا ‘ امن مارچ بھی ہوئے‘ امن جلسے بھی ہوئے ‘ لیکن یہ سلسلہ رکنے کی بجائے ورکرز کنونشن میں بم دھماکے تک آن پہنچا‘ اور اس بم دھماکے کی وجہ سے ہمارے80 کے لگ بھگ جوان علماء‘ حفاظ اور قراء شہید ہوگئے ‘ جبکہ دوسو سے زائد زخمی ہوئے‘ جن میں سے ستر کے قریب اب بھی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن یہ قربانیاں ہمیشہ سے دیتے چلے آرہے ہیں ‘ ماضی میں بھی درجنوں جید علماء کرام سمیت سینکڑوں کارکنان نے جام شہادت نوش کیا‘ مولانا فضل الرحمن پر چار مرتبہ حملے ہوئے‘ ہم یہ سب کچھ اپنے نظرئیے کے لئے برداشت کرتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں‘ شریعت کی بات کرتے ہیں ‘ ہمارا ایک نظریہ ہے‘ حملہ کرنے والی قوتیں وہی ہیں جن کے نزدیک اسلام ‘ شریعت یا پاکستان کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے ‘ ورنہ دیکھا جائے تو ہمارا جرم کیا ہے؟ جرم یہ ہے کہ ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں ‘ جرم یہ ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں‘ اسلام اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تحفظ اور ختم نبوتؐ کے تحفظ‘ کو ہم ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں‘ آپ ہماری تمام سرگرمیوں کا جائزہ لیں‘ جب سے پاکستان بنا‘ تب سے اب تک ہمارا کوئی ایسا بیان نہیں جو ریاست کے خلاف ہو ‘ ایسا کوئی بیان نہیں کہ جو شریعت اور اسلام کے خلاف ہو‘ تو پھر ہم پر یہ حملے کون کروا رہا ہے؟ ہم نے جو سی پیک کی حمایت کی ہے اور سی پیک معاہدے میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے جو کردار ادا کیا ہے ‘ اور اس کی خشت اول کے طور پر ’’مولانا‘‘ کا جو جاندار کردار رہا ہے ‘ کیا یہ ہمارا جرم ہے؟ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ‘ اس سے تین چار سال پہلے یہ مسئلہ نہیں تھا‘ انتہائی احترا م کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے جو حکومت تھی عمران خان کی صورت میں وہ انہی قوتوں کی حکومت تھی ‘ اسرائیل‘ قادیانی ‘ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور انڈیا‘ یہ میں (عبدالغفور حیدری) نہیں کہہ رہا ‘ بلکہ فارن فنڈنگ سے یہ ساری چیزیں ثابت ہوگئیں۔