فحش وڈیوز سکینڈل اور اس کا سدباب

(گزشتہ سے پیوستہ) آئے روز الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے واقعات میں یہ بات واضح ہے کہ فحاشی پر مبنی ڈرامےاورنیم برہنہ عورتوں کی تصاویر اور ویڈیوز جذبات ابھارنےمیں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر اخبار ورسائل میں جو اشتہار شائع ہوتے ہیں، ان میں عورتوں کو پرکشش بناکربرائے نام کپڑوں میں دکھایاجاتا ہے۔ ہر طرح کے اشتہارات کے لیے عورتوں کے حسن کا استعمال کیاجاتاہے۔یہاںتک کہ چھوٹےچھوٹے اشتہارات میں بھی عورت کونمایاں کیاجاتاہے، سنیماؤں اورٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں عورت کےحسن کو زیادہ سے زیادہ نکھارکر نیم عریاں لباس میں پرکشش بناکر پیش کیا جاتا ہے، یہ بے ہودہ اور شرم ناک مناظر جنسی جذبات کو برانگیختہ کرتےہیں،ان مناظر پر کوئی روک تھام نہیں ہے البتہ نتیجے کے طور پر کوئی نازیبا حرکت یا فعل سرزد ہوجائے تو پھر قانون حرکت میں آجاتا ہےجبکہ اسلام کا طرزتعلیم وتربیت یہ ہےکہ پہلےبرائیوں اورجرائم کی طرف جانےوالےراستوں پرپابندی عائدکرتا ہے،رہنےکیلئے ایک صالح اورپاکیزہ ماحول مہیاکرتاہے، اسکےبعد سزا و جزاکا عمل حرکت میں آتاہےمثلاً اسلام شراب اور دوسری منشیات کو حرام قرار دیتا ہے۔ مرد اورخواتین کے آزادانہ میل ملاپ پرپابندی عائدکرتاہے۔ خواتین کو باوقار اورباپردہ لباس کا پابندبناتاہے۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتاہے۔ اس کےبعد بھی اس پاکیزہ ماحول اورمعاشرہ میں کوئی بے حیائی یا فحاشی کرےتو پھر اسے عبرتناک سزادیتاہے۔ زانی اگر غیرشادی شدہ ہے تو اس کو سو 100 کوڑےکی سزا ہے، اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو سنگسار (پتھرمارکر ہلاک) کردینےکی کڑی سزاہے۔ یہ سزائیں چوراہوں پر عوام کےسامنے دی جاتی ہیں تاکہ اس عبرتناک سزا کے بعدکوئی اس طرح کی حرکت کی جرأت نہ کرسکے. یہی وہ خوف اورڈر ہے جو برائیوں سے بچا سکتا ہے۔
جب تک ماحول اورمعاشرہ کی اصلاح وتعمیر نہیں ہوگی، اس وقت تک یہ جرائم نئےنئےانداز میں منظر عام پرآتے رہیں گے۔ بغورجائزہ لیں تو اس وقت ٹی وی چینلز پرپیش کیےجانےوالےکچھ ڈرامے ہماری دینی،مِلی اور اخلاقی قدریں تباہ کر رہے ہیں۔ کہیں شادی شدہ عورت اپنے شوہرکوچھوڑ کرآشنا کےساتھ بغیر نکاح کے رہ رہی ہے تودوسری طرف محبت کےنام پربےحیائی،طلاق اورناجائز تعلقات ڈراموں کےمرکزی خیال نظرآتےہیں۔ اس طرح وطن عزیزکی اسلامی روح اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کو مجروح کیاجارہاہے۔ جب ان اخلاق باختہ ڈراموں کی قسطیں سینماگھروں میں دکھانے کا اعلان کیاجاتا ہے توکروڑوں روپےکےٹکٹ فروخت ہوتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پرفحش موادبھی اخلاقی پستی کا ایک سبب ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ میں بھی پورنو گرافی اور یہ سب کچھ عام ہےبلکہ اسی نقالی کےنتیجے میں ہمارے معاشرے بھی پدرمادرآزاد ہوتے چلےجارہےہیں لیکن ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ مغربی سماج سےشرم وحیا اورعفت و عصمت جیسی خوبیاں عرصہ دراز سے دم توڑچکی ہیں۔ وہاں جنسی آزادی اس قدرعام ہےکہ معاشرہ، ملکی قوانین اورخاندان بھی عمر کی ایک حد کے بعد رضامندی سے کھلے عام جنسی تعلقات کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاںتک کہ مرد و عورت کےمابین نکاح بھی ماضی کاقصہ بن چکا ہے۔ اب بلاامتیازجنس،مردوزن جس کاجس سے دل چاہے اس سےجنسی تعلق قائم کرے(الامان والحفیظ)لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور جب کوئی بےحیائی کاواقعہ پیش آئےتو غیرت ایمانی جاگ جاتی ہے۔ بسااوقات غیرت کےنام پرقتل و غارت بھی ہوتی ہے۔ ان تمام مسائل کاواحدحل یہ ہے کہ ہم دو کشتیوں پر پاؤں رکھنےکی بجائے ایک ہی کشتی پرپرسکون طریقےسے بیٹھیں اوروہ ہےاسلامی تہذیب وثقافت پر مبنی اسلامی معاشرہ۔ اگر ہم مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر معاشرےمیں اسلامی اقدارکو رواج دیں۔ پیمراجیسے اداروں کوموثربنا کرہرطرح کےذرائع ابلاغ پرکڑی نظر رکھتےہوئے،وہاں سےبےحیائی کاخاتمہ کریں۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی اخلاقیات کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔ موم بتیاں اٹھا کر “ہمارا جسم، ہماری مرضی” والی آنٹیوں اوران کی فنڈنگ کرنےوالی این جی اوزکو وارننگ دیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بےحیائی پھیلانےسےبازآجائیں یابہت ہی شوق ہےتو ان مقاصد کےلیےکوئی اور زمین استعمال کریں۔ اب کتنے دن ہوچکے ان واقعات کو لیکن وہ آنٹیاں سوئی ہوئی ہیں۔ ملک میں اسلامی شرعی قوانین کا نفاذ کرکےہرمجرم کواسکےجرم کےمطابق اسلامی سزائیں دیں۔ ان شاء اللہ اسی سےمعاشرہ سدھر جائے گا۔ یادرکھیں جبتک جنسی جرائم کی تہہ تک پہنچ کر انہیں جڑسے نہ اکھاڑا گیا، اس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ جرائم بڑھنےکادوسرابڑاسبب پولیس اورعدالتی نظام کی کمزوریاں ہیں۔ پاکستان میں جب کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو پولیس کی چاندی ہو جاتی ہے۔ پہلے ایف آئی آر کاٹتےہوئے مدعی سےمال بٹورتے ہیں۔ جب بات چالان تک پہنچتی ہےتو ملزمان سے مقدمے کی نوعیت کے اعتبارسےمال وصول کرتےہیں۔بعدازاں پراسیکیوشن میں ملزمان کو بچانے کی گنجائش نکال کےمقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ جج نے اپنےسامنے پیش کردہ چالان کے مطابق ہی مقدمہ کی کارروائی چلانا ہوتی ہے۔ اس طرح پولیس کی رشوت ستانی اور بددیانتی کی وجہ سےبڑےبڑےسنگین جرائم میں ملوث ملزم آسانی سےرہاہو جاتے ہیں۔ جب یہ مجرم جیل سےباہر آتے ہیں توپہلےسےزیادہ بھیانک وارداتیں کرتےہیں۔ اسی طرح عدالتیں بھی جلدازجلد کارروائی کرکے سزائیں دینےکی بجائے سالہاسال مقدمات لٹکائے رکھتی ہیں۔ ایک سینئر سیاستدان کےبقول بسااوقات روز روزکےوکیل بدلنےکی بجائے لوگ ایک دفعہ جج ہی خرید لیتےہیں۔ پولیس اورعدالت کےنظام میں خاطرخواہ مثبت تبدیلیوں سےبھی جرائم میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ انصاف اتنامہنگاہےکہ عام آدمی اسے خریدنے کی وقعت ہی نہیں رکھتا۔اگر معاشرےسے جنسی ہیجان پیداکرنےوالےمحرکات کاسدباب کردیا جائےاورپولیس کی کارروائی اورعدالتی نظام کی اصلاح پرتوجہ دی جائےتو ایسے روح فرسا واقعات سے آئندہ نجات مل سکتی ہے۔ کیایہ حقیقت نہیں کہ ایسے کئی ملزمان پرپہلے بھی سنگین مقدمات درج ہیں لیکن اس کےباوجود وہ دندناتےپھررہےہیں۔ اگرانہیں پہلے جرائم میں قرار واقعی سزامل چکی ہوتی تو ہمیں یہ برا دن نہ دیکھنا پڑتا۔