شہادت حسینؓ کامطالبہ

(گزشتہ سے پیوستہ) اب جب یزیدکوخلافت ملی تواہل کوفہ کی محبت اہل بیت کیلئے جوش میں آئی اور انہوں نے خطوط کے ذریعے امام حسینؓ کوخلافت کیلئے مجبورکرناشروع کردیا۔امام حسنؓ اہل کوفہ کی نفسیات اورصورتحال کی نزاکت کواچھی طرح جان چکے تھے،اسی لئے اپنے بھائی کووصیت میں اہل کوفہ کے بارے میں اپنی آرا سے آگاہ کرچکے تھے کہ’’کوفہ والوں کے فریب میں مت آنا۔ لیکن حضرت حسینؓ اپنے لئے ایک کردار کا انتخاب کرچکے تھے وہ تھا”خلافت منہاج نبوت کا تحفظ اوراس ادارے کے انہدام سے اہل اسلام کوجن مصائب کاسامنا کرناپڑرہاتھااس سے بھی امت مسلمہ کے اعصاب پربہت برااثرپڑرہاتھا۔ ان کے سامنے شہادتِ عثمانؓ کاواقعہ رونماہوا۔ حضرت عثمانؓ نے بھی مسلمانوں کوباہم خانہ جنگی سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کردی حالانکہ اس وقت مدینے کے وفادار مسلمانوں کی جماعت آپ کے مکان پرموجودتھی لیکن حضرت عثمانؓ نے ان سب کو قسم دلاکر اپنے مسلمان بھائیوں پرحملہ سے روک رکھاتھااوراپنے گھر بیٹھ کرقرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔دراصل وہ بھی شریعت کے حکم کی تعمیل کررہے تھے کہ: وقاتِلوا فِی سبِیلِ اللہِ الذِین یقاتِلونکم ولا تعتدواِ ِن اللہ لایحِب المعتد ِین اوراللہ کی راہ میں ان سے لڑوجوتم سے لڑیں اورزیادتی نہ کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کوپسندنہیں کرتا۔ (بقرہ۔19)
اپنی طرف سے جارحیت کاآغازبندہ مومن کیلئے کسی طورپربھی جائزنہیں کہ مسلمان دعوت ونصیحت کے ذریعے کوئی خیرکی راہ نکالتاہے نہ کہ قتال کاراستہ اختیارکرکے،اس کے بعد اگر دوسروں کی طرف سے جارحیت کا آغاز ہوتو دوصورتیں ہیں،جارحیت کا آغاز اگر کفار کی طرف سے ہوتوپھربھی مخصوص شرائط کے تحت اس کے دفاع کاحکم ہے”۔ لئِن بسطت اِلی یدک لِتقتلنِی مانابِباسِطِ یدِی اِلیک لاقتلک ﷺ اِنِیِ اخاف اللہ ربِ العالمِین، لیکن جارحیت کا آغاز اگر مسلمان کی طرف سے ہوتوایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دفاع کے طورپربھی اپنے دینی بھائی پروار نہ کیا جائے اگرتونے مجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ کو بڑھایا تومیں تجھے کو مارنے کیلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھائوں گا (المائدہ۔28) ابوموسی سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے آنے والے فتنے سے جب ڈرایا تو لوگوں نے پوچھاکہ ہم کوآپﷺکاکیاحکم ہے؟ توآپ ﷺ نے فرمایا’’اس میں اپنی کمانوں کو توڑڈالو،اپنی تانت کوکاٹ ڈالو،اپنی تلواروں کو پتھر پرپٹک دو،اپنے گھروں کے اندربیٹھے رہو، اگرتم کومارنے کیلئے کوئی تمہارے گھرمیں گھس آئے توتم آدم علیہ السلام کے دولڑکوں میں سے بہترلڑکابنو،قتل ہوجائومگرقتل نہ کرو‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓنے اصول شریعت کی اتنی بڑی عملی مثال قائم کردی اوروہ حضرت آدم علیہ السلام کے بہتر بیٹا بن گئے لیکن حضرت امام حسینؓ کے سامنے اس عظیم المرتبت کارنامے کے بعدآنے والے واقعات نے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح کردی تھی کہ اگر حضرت عثمانؓ ’’خلافت علی منہاج نبوت‘‘کا دفاع کرتے تویقینا خلافت کا ادارہ انتشاراورانارکی سے محفوظ رہتا۔ بعدمیں حضرت حسینؓ اوراہل حجازکو بھی اس کاخمیازہ بھگتنا پڑا۔حضرت حسینؓ نے اپنے والدگرامی حضرت علیؓ کوبھی خلافت کے ادارے کی حفاظت کی خاطر شہید ہوتے دیکھاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ حضرت حسن ؓنے ان تمام حالات کا عملی مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے لئے غیر سیاسی طریق کارکا انتخاب کیا،اس پرنہ صرف عمل کیا بلکہ اپنے بھائی کوبھی اس کی وصیت کی لیکن حضرت حسینؓ نے اپنے لئے سیاسی طریق کار کاراستہ منتخب کرکے اپنے والدحضرت علی ؓکی سنت پرعمل کیا۔ یہاں امام حسنؓ کے غیرسیاسی طریق کار کی وضاحت ازحدضروری ہے۔اس کیلئے پہلے ہمیں مستنداحادیث اوراسلامی تاریخ کی مستند کتابوں سے مددلینا ہوگی۔یزید کے مقابلے میں جو صورتحال حضرت حسینؓ کوپیش آئی اس سے کہیں زیادہ مشکل حضرت حسنؓ کوحضرت معاویہؓ کے مقابلے میں پیش آچکی تھی مگرآپ نے اس سے مختلف ردعمل کااظہارکیاجس کانمونہ ہمیں حضرت حسینؓ کے آخری خطبہ سے بھی ملتا ہے جہاں حضرت حسینؓ نے بھی جنگ وجدل سے بچنے کیلئے تین شرائظ پیش کی تھیں ۔(طبری جلد4صفحہ313) احادیث کی کتب میں حسنینؓ کے بارے میں بہت سے روائتیں ملتی ہیں جن میں حضرت حسینؓ کیلئے زیادہ تر’’محبت‘‘ کاذکرہے جونواسہ ہونے کی حیثیت سے آپ کیلئے بالکل فطری ہے اوردوسری طرف امام حسنؓ کے بارے میں جوروایات نہ صرف سندا زیادہ قوی ہیں بلکہ فطری محبت سے آگے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مثلاحضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ:حسن بن علیؓ سے زیادہ کوئی شخص نبی اکرمﷺ سے مشابہ نہ تھا۔ دوسری طرف یہ ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺنے امام حسن ؓکے بارے میں ایک عظیم کردارکرنے کی پیشین گوئی ارشادفرمائی تھی ۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺکومنبرپردیکھاجہاں حسن بن علیؓ آپ کے پہلومیں تھے۔ایک بارآپﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اوردوسری باران کی طرف،اورفرماتے تھے،یہ میرا لڑکا ہے، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروا دے۔ (بخاری) (جاری ہے)