بہاولپور: یونیورسٹی میں لرزہ خیز سیکنڈل!

بلوچستان میں بارشیں اور سیلاب… ناقابل ضمانت وارنٹ پر عمران خان الیکشن کمیشن میں پیش… گوردوارہ کرتار پور ‘ بھارتی راہداری5 ویں روز بھی بند … قومی اسمبلی میں عالیہ کامران کا خوفناک انکشاف… اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی5500 طالبات کی نازیبا تصویریں چلائی جارہی ہیں … چیف سیکرٹری ‘ آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب‘ گرفتار چیف سیکورٹی افسر اعجاز شاہ کے سنسنی خیز انکشافات‘ متعدد پروفیسر‘ وائس چانسلر بھی سکینڈل میں ملوث‘ پولیس حکام کی تصدیق… سندھ پولیس نے کچے کے علاقے میں40 خطرناک ملزم گرفتار … اسحاق ڈار نگران وزیراعظم کی حمایت‘ مخالفت‘ تصدیق‘ تردیدیں… روس اور چین میں نئے سفیر … گلابی نمک ‘ چین کو برآمد بڑھ گئی…وزیراعظم‘ تین نئے صنعتی زونوں کی بنیاد… بھارت‘ منی پور میں مسیحی خواتین کی بے حرمتی پر امریکہ کا سخت ردعمل… آرمی چیف‘ عوامی مسائل پر اظہار خیال… سٹاک ایکس چینج46 ہزار کی حد عبور… کراچی‘ صحافتی تنظیموں نے حکومت کا صحافتی بل مسترد کر دیا … شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر دو گھنٹے ایف آئی اے میں پیش… گیس‘45 فیصد اضافہ کا فیصلہ… اسلام آباد‘ ایک اور جج کی بیوی کا کمسن ملازمہ بچی پر سنگین تشدد‘ زخموں میں کیڑے پڑگئے‘ ججز کی بیوی بچی کو ماں کے سپرد کرکے بھاگ گئی‘ بچی اسلام آباد سے سرگودھا وہاں سے نازک حالت میں لاہور ہسپتال منتقل‘ تحقیقات شروع۔سپریم کورٹ میں عمران خان سے صحافی کا نازیبا سوال‘ عمران خان کو بے شرم و ڈھیٹ کہنے پر ہنگامہ‘ رپورٹر معطل‘ تحقیقات شروع۔بارشیں اور سیلاب بدستور جاری ہیں۔ مزید بارشوں کی پیش گوئی۔ بھارت میں بارشوں سے وسیع تباہی‘ لاہور کی طرح دہلی شہر بھی پانی میں ڈوب گیا۔ سارا پانی پاکستان کی طرف آرہا ہے۔ خدا خیر کرے!
قومی اسمبلی میں بہاولپور سے انتہائی اذیت ناک‘ شرم ناک سیکنڈل کا انکشاف! ایک خاتون رکن اسمبلی عالیہ کامران نے انکشاف کرکے ایوان میں سنسنی پھیلا دی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں دس سال سے پانچ ہزار پانچ سو(5500) طالبات کی نازیبا تصویریں اتار کر انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے اور یہ کہ اس سیکنڈل میں خود وائس چانسل ڈاکٹر اطہر محبوب‘ بعض پروفیسر اور دو چیف سیکورٹی افسر بھی ملوث ہیں۔ بہاولپور کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سید محمد عباس نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی میں منشیات فراہم کرنے والے اور دوسرے جرائم میں ملوث113 ملازمین اور طلباء کے خلاف ٹھوس ثبوت مل چکے ہیں اور مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ مزید مقدموں کا امکان ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر محبوب کے خلاف یونیورسٹی میں اربوں روپے خوردبرد کرنے کا کیس بھی چل رہا ہے۔ صحافتی سطح پر اس مذموم سیکنڈل کے عجیب انکشافات سامنے آئے ہیں یہ کہ یونیورسٹی کے طلبا کی ایک صدر (نام مقدمے میں درج ہے) طالبعلم نے طالبات کے ہوسٹل میں ایک غیر طالبعلم لڑکی کو زبردستی داخلہ دلوایا۔ اسے ایک خفیہ کیمرہ دیا گیا۔ جو مختلف لڑکیوں کے لباس کی تبدیلی اور باتھ روم وغیرہ کی تصویریں بناتی تھی۔ ان تصویروں کی بنا پر ان لڑکیوں کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔ اس شرم ناک جرم میں چیف سیکرٹری مدثر جمیل بندیشہ بھی شریک تھا۔ اس سیکنڈل کی ابتدائی اطلاع پر ہوسٹل کی انچارج پروفیسر نے تصویریں بنانے والی لڑکی کو ہوسٹل سے نکال دیا اس پر اسے ہوسٹل میں داخل کرانے والی طلبا تنظیم کا صدر‘ اس خاتون پروفیسر کے دفتر میں گیا اور اسے پستول دکھا کر دھمکیاں دیں۔ اس دوران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے سابق چیف سیکورٹی اعجاز شاہ کو اس سیکنڈل میں ملوث ہونے پر ملازمت سے نکال دیا مگر نئے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اسے بحال کرکے سیکورٹی کی د وسری ملازمت دے دی اور مدثر جمیل بندیشہ کو نیا چیف سیکورٹی افسر مقرر کر دیا‘ وہ بھی اس گھنائونے جرم میں شریک ہوگیا۔ قومی اسمبلی میں عالیہ کامران کے ان ہولناک‘ انکشافات کے بعد اسمبلی کے بعض ارکان نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اسمبلی کی تعلیم کی قائم کمیٹی نے وائس چانسلر کو طلب کیا‘ وہ نہیں آیا۔ کمیٹی نے اسے وارنٹ گرفتاری کے ذریعے لانے کاحکم دے دیا۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی سیکرٹری معدنیات اور پولیس کے دو ڈی آئی جی افسروں پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے دو ارب 30 کروڑ روپے کمشنروں‘ ایڈیشنل کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں اور تحصیلداروں کے لئے200 مہنگی پرتعیش گاڑیاں منگوانے کی منظوری دی اس پر لاہور ہائیکورٹ نے افسروں کے پاس موجودہ گاڑیوں کی تفصیل اور انہیں تبدیل کرنے کی وجوہ طلب کی ہیں۔36 ڈپٹی کمشنروں وغیرہ کے لئے صرف پانچ سال قبل بالکل نئی گاڑیاں خریدی گئی تھیں۔ عوام پر مسلط ان منہ زور افسروں کے مطالبہ پر انہیں اعلی قسم کی نئی پرتعیش گاڑیوں کی فراہمی کے لئے صرف18 دنوں کے بعد فارغ ہونے والے عارضی نگران وزیر اعلیٰ نے دو ارب 30 کروڑ روپے جاری کرنے کاحکم جاری کر دیا۔ مگر ایک شہری فرحت منظور چانڈیو ایڈووکیٹنے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ سارا ملک شدید بدحالی کا شکار ہے عوام خودکشیاں کر رہے ہیں اور بلاضرورت افسروں کے لئے 200نئی گاڑیاں منگوائی جارہی ہیں۔ سرکاری وکیل نے درخواست کی مخالفت کی اور نگران وزیراعلیٰ کا موقف دہرایا کہ افسروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے نئی گاڑیوں کی بہت ضرورت ہے۔ ہائی کورٹ کے جسٹس رسال حسین نے سرکاری وکیل کے اعتراض کو مسترد کرکے افسروں کے پاس موجودہ گاڑیوں کی تفصیل طلب کرلی ہے۔ ڈگمگاتی 13پارٹیوں کی بھان متی حکومت کو ہر حکومت کی طرح ملک کے صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پسند اور راس نہیں آئی۔ سابق حکومت کے وزیر سوال پوچھتے صحافیوں کو تھپڑ مار دیتے تھے،ٹیلی ویژنوں پر میز جوتے رکھ کر صحافیوں سے بات کرتے تھے، موجودہ حکومت صحافیوں کے ساتھ دشمنی میں اتنی آگے نکل گئی کہ بعض صحافی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ارشد شریف، صابرشاکر، عمران ریاض، محمد جمیل کتنے ہی نام ہیں۔ جو حکومت جبر وستم سے تنگ آکر ملک سے باہر چلے گئے۔ ایک صحافی کو رات کے وقت اٹھا لیا، شور مچا تو چھ دنوں کے بعد نصف رات کو گھر پر پھینک دیا گیا۔ ان حرکتوں کے بعد صحافیوں کو قانون کے جال میں پھنسانے کی نئی ترکیب ’’تحفظ صحافت‘‘ نام کے بل کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس میں صحافت کی آزادی پر سخت ترین وار یہ کیا گیا ہے کہ ڈس انفارمیشن (گمراہ کن خبر) کے نام پر اخباری رپورٹر، ایڈیٹر و مالکان کو قید کیا جاسکتا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ ایک بار پولیس کے ہتھے چڑھنے کے بعد رہا ہونے کے لئے کیا عذاب جھیلتے پڑتے ہیں، بل میں حربہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ جھوٹی خبر کی صفائی اور ثبوت صحافی کو خود ڈھونڈنا ہوگا۔ اس حربے نے ملک بھر کے لاکھوں صحافیوں کے لئے عذاب ناک خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں ہزاروں اخبارات و جریدوں کے لاکھوں صحافیوں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ صحافتی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ بلاشبہ کچھ دانستہ گمراہ کن واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن پر سخت ایکشن بھی لئے گئے مگر صحافیوں کی اکثریت پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ خبروں کی اشاعت کا عام انداز یہ ہے کہ صحافی کے پاس براہ راست خبریں آتی ہیں باخبر رساں اداروں، ٹیلی ویژن، ریڈیو اور سوشل میڈیا سے خبر ملتی ہے۔ کسی بھی صحافی کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ چھ سات سو کلو میٹر دور سے آنے والی خبر کی موقع پر جا کر خود تحقیق کرے ! اسے اپنے نمائندوں اور خبر رساں اداروں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ بعض نمائندہ بیک طرف خبریں بھیج دیتے ہیں ان کا محاسبہ بھی کیا جاتا ہے! میں یہاں ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا طرف مختصر طور پر بتانا چاہتا ہوں۔ مس انفارمیشن (غلط خبر) غلط فہمی کے باعث لگ سکتی ہے جب ڈس انفارمیشن یعنی گمراہ کن خبر باقاعدہ منصوبہ کے طور پر دانستہ لگائی جاتی ہے۔ اس انداز کا محاسبہ ضروری ہے۔ مس انفارمیشن کا علم ہونے پر اس خبر کی معذرت اور وضاحت ضروری ہوتی ہے مگر ڈس انفارمیشن قابل تعزیر واردات شمار ہوتی ہے۔ اب یہ ہوگا یہ کہ نادانستہ طور پر کسی خبر میں غلط اعدادوشمار یا دوسرے حقائق کے بارے میں غلط فہمی ہونے پر حکومت فوری طور پر اس رپورٹر اور ایڈیٹر پر ڈس انفارمیشن کے الزام کے تحت اس صحافی کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کرے گی۔ جو عدالت سے 14روز کا جسمانی ریمانڈ لے گی۔ صحافی کو طویل قید و تشدد کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس صورتحال سے پیشگی ہراساں ہونے کے واضح نتیجہ یہ نکلے گا کہ صحافی لوگ حکومتوں کی حماقتوں، اربوں کے سیکنڈلوں اور لاقانونیت وغیرہ کی خبروں کی تشکیل، تبصروں سے گریز کریں گے۔ آئندہ کسی کالم میں دوسرے ملکوں میں آزادی صحافت کے اچھے برے اقدامات کا ذکر کرونگا۔