قرآن پاک جلانے والوں کا علاج!

28جون کو سویڈن میں جب پہلی بار سرکاری سرپرستی میں قرآن پاک جلایا گیا تو ترکیہ کے صدر طیب اردگان نے قرآن پاک کو مسلمانوں کی ریڈلائن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہم انہیں سبق سکھائیں گے اور پھر طیب اردگان نے سبق کیا سکھایا؟ اور وہ ’’سبق‘‘ یہ کہ ’’سویڈن‘‘ کی نیٹو رکنیت کی راہ ہموار کر دی‘‘ یاد رہے کہ سویڈن کی نیٹو رکنیت بحالی میں سہولت کاری کے فرائض سرانجام دینے والا رجب طیب اردگان حافظ قرآن بھی ہے،28جون کو سویڈن میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کے خلاف پاکستان میں بھی سخت احتجاج ہوا، وزیراعظم شہباز شریف نے سویڈن کو للکارتے ہوئے فرمایا کہ اگر اب دوبارہ یہ حرکت کی گئی تو پھر اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔20جولائی کو سویڈن میں دوبارہ قرآن پاک کو نذر آتش کر دیا گیا مگر آج کل وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں اس حوالے سے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے خلاف سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی اپنے تحریری بیان میں مقدس کتاب پر حملے کی شدید مذمت کی۔ ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ سے لے کر قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، آذربائیجان، افغانستان، ایران،عراق، لیبیا،یمن سمیت تقریباً تمام عالم اسلام میں سویڈن کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا، جلوس نکالے گئے، بڑے بڑے مظاہرے کئے گئے۔ کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مگر پھر ہوا کیا،28جون کے بعد نہ صرف 20جولائی کو دوبارہ سویڈن حکومت کی سرپرستی میں قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیا بلکہ 22جولائی کو ڈنمارک کے دارالحکومت کوہن ہینگن میں بھی دائیں بازو کے شیطانوں نے سرعام قرآن پاک کو نذر آتش کر دیا ، وفاق المدارس کے سربراہ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس سارے خوفناک منظر نامے کی منظر کشی کچھ ان الفاظ میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’اپنی اس نااہلی اور انتہائی کمزوری کا شکوہ، اپنے آپ کے علاوہ کس سے کریں کہ قرآن کریم اور ناموس رسالتؐ کے خلاف بار، بار ہونے والے حملے دیکھنے کے باوجود ہم اپنی غیرت ایمانی کے اصل تقاضوں پر عمل کرنے سے قاصر ہیں، ہم صرف زبانی احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن کم سے کم ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ ان سے سفارتی تعلقات توڑ سکتے ہیں، نہ ان کی مصنوعات کا مئوثر اور دیرپا بائیکاٹ کر سکتے ہیں، یااللہ ہمارے گناہ معاف فرما کر ہمیں اس ذلت کا مداوا کرنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘ ’’شیخ الاسلام‘‘ کا یہ ٹویٹ امت مسلمہ کی کمزوری اور زبوں حالی کا نوحہ ہے، ہم ساڑھے چودہ سو سال پہلے تین سو تیرہ تھے اور پورے عرب کے مشرکین سے ٹکرا گئے اور آج تقریباً ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہونے کے باوجود اپنی مقدس ترین کتاب قرآن پاک حفاظت کرنے سے بھی قاصر نظر آرہے ہیں۔ ’’ہائے ری امت مسلمہ‘‘ کیا فائدہ تیری پچپن، ساٹھ حکومتوں کا؟ کیا فائدہ تیری دولت اور جاہ و حشمت کا؟ کیا فائدہ تیری فوجوں اور ایٹم بم کا؟ اگر قرآن پاک ریڈ لائن ہے تو اس ریڈ لائن کو توڑنے والے بدمعاشوں کے خلاف ’’جہادی‘‘ ہاتھوں سے نمٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ’’کسی کو اچھا لگے یا برا لگے، مائی فٹ‘‘ لیکن آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ امت مسلمہ کو جہاد و قتال والے راستے کو ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ وہ نجانے کہاں ہیں؟ اللہ ان کی حفاظت فرمائے، آمین۔ امیرالمجاہدین نے غالباً بیس سال قبل فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے لئے جہاد کھانے کی طرح لازم ہے، صلیبی، یہودی، مشرکین مشتشرقین اور منافقین مسلمانوں سے جہاد و قتال کی محبت ختم کرکے ان کے قلوب و اذہان کو سڑکوں کے احتجاج دیواروں کی چاکنگ، نعرے بازی یا پھر قلمی جہاد تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس ’’مرد جری‘‘ نے بالکل درست کہا تھا، کوئی جہاد کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے قادیانیت کے سہولت کاروں سے پوچھے کہ اب سویڈن میں تو کسی جہادی نے صلیبیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا تھا، ڈنمارک میں توکسی جہادی کا کوئی پروپیگنڈہ نہیں تھا، پھر وہاں شیطانوں کو قرآن پاک نذر آتش کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ آج میرے سمیت ہر مسلمان کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہم اس قدر، لاغر، کمزور، نحیف، بے بس اور بے کس ہوچکے ہیں کہ جو کتاب اللہ کی حفاظت سے بھی قاصر ہیں، مسلمانوں، کیا فائدہ تمہاری جوانیوں، چوہدراہٹوں، نوابیوں، جرنیلوں اور حکومتوں کا کہ جو ڈیڑھ ارب سے زائد ہونے کے باوجود قرآن پاک کی حفاظت کی بھیک بھی امریکہ اور اقوام متحدہ سے مانگنے پر مجبور ہو، بے شک جب جہاد کو ترک کر دیا جائے تو پھر کائنات کا رب ذلتوں کو مسلط کر دیتا ہے، آج اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ کافر ہمارے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور ہم حفاظت کی بھیک کفریہ طاقتوں کے سرغنوں سے ہی مانگنے پر مجبور ہیں، مسلمان جلسے، جلوسوں، مظاہروں میں چیختے ہیں کہ دیکھو ہم تورات، زبور اور انجیل کا احترام کرتے ہیں، ہم نے تو ان آسمانی کتابوں کی توہین کا کبھی تصور بھی نہیں کیا، لیکن اس کے باوجود سویڈن کی حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کو چڑانے کے لئے دوبارہ قرآن پاک کو اعلانیہ نذر آتش کیا گیا صرف یہی نہیں پوری دنیا میں مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ڈنمارک میں بھی یکے بعد دیگرے سرعام دو مرتبہ قرآن پاک کو نذر آتش کرکے یورپ نے مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ تمہارے جلسے، جلوسوں، مظاہروں، مخالفانہ نعروں، لمبی لمبی تقریروں کا ہمیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ ڈر، نہ طیب اردگان، نہ شہباز شریف، نہ ایم بی ایس، نہ ایران، نہ قطر اور نہ ہی دنیا کے کسی اور مسلمان حکمران سے یورپ والے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اس کا احترام کرتے ہیں، سیدھی سی بات ہے قرآن پاک نذر آتش کرنے والے سورما ہوں یا ناموس رسالتﷺ پر حملے کرنے والے شیطان ان سب کا ’’علاج‘‘ جہاد ہے صرف جہاد، مسلمانو! کافر، قرآن پاک کو نذر آتش کرکے پوری امت مسلمہ کو بار، بار چیلنج کر رہے ہیں کہ آئو اگر تم میں ’’دم‘‘ ہے تو ہمیں روک کر رکھائو، اظہار رائے کی آزادی کے ان غلیظ شیطانوں کو جب تک ’’جہادی‘‘ خاک نہیں چٹائی جائے گی اس وقت تک قرآن پاک کے ان مجرموں کو چین نہیں آئے گا۔