شہادت حسینؓ کامطالبہ

اسلامی سال کاآغازماہ محرم الحرام سے ہوتاہے۔امم سابقہ میں بھی اس کوماہ معظم سمجھا جاتا تھا اورآج بھی ماہ ِمحرم کی عظمتوں سے کسی کوانکارنہیں اور خصوصاً یوم عاشورہ محرم کی دس تاریخ توملت اسلامیہ کاناقابل فراموش دن ہے۔ گو اس کی وجہ تسمیہ میں علماکااختلاف ہے اور اس کی وہ مختلف توجیہات بھی بیان فرماتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبارسے امت محمدیہ کوعطاکی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی کاہے اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب انبیا پر مختلف انعامات اسی دن فرمائے! اس حدیث سے یومِ عاشورہ کی اہمیت قدرے واضح ہوجاتی ہے کہ سیدناابن عباس رسول اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ نے عاشورہ کے دن آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کو پیدا فرمایا، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق بھی اسی دن فرمائی،حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن باریاب ہوئی،اسی دن ان کوجنت میں داخل فرمایاگیا۔سیدناابراہیم خلیل اللہ بھی اسی دن پیدا ہوئے، اوران کے بیٹے کافدیہ قربانی بھی عاشورہ کے دن دیاگیا۔فرعون کوبھی اسی دن دریائے نیل میں غرق کیاگیااورحضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف بھی اسی دن دورفرمائی گئی۔حضرت دائود علیہ السلام کی لغزش بھی یوم عاشورکو معاف فرمائی گئی اورحضرت عیسی علیہ لسلام ابن مریم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی اورقیامت بھی یوم عاشورہ کے دن ہی واقع ہوگی (غنی الطالبین)
لیکن پاک وہنداورچنداسلامی ممالک میں محرم الحرام کی ان تمام عظمتوں کے علاوہ اس کی وجہ تسمیہ شہادتِ حسین بھی ہے بلکہ اس عظیم واقعہ کی چھاپ ہماری اسلامی تاریخ پراس قدرزیادہ ہے کہ اس کے علاوہ اب عملاً ہمارے لئے کسی اور واقعے کی اتنی اہمیت ہی نہیں رہی اورنہ ہی ہم اس سے واقف ہیں۔شہادت حسین حق کی ایسی تصویر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے مقابلے میں اس دن کی دوسری عظمتوں کانہ توہم ذکرکرتے ہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اسلام کی روح یہ ہے کہ وہ ناحق اورباطل کے سامنے سرکٹادے لیکن ہرگزاس کوجھکنے نہ دے، اس عظیم عمل کوشہادت کہتے ہیں اوراس شہادت کی اعلیٰ ترین مثال اورتکمیل کانام بلاشبہ ’’شہادتِ حسینؓ‘‘ ہے جنہوں نے6ہزار کے لشکرکے سامنے عام روایت کے مطابق بہتر(72) مجاہدوں کے ساتھ ٹکرلی اوران ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے کی بجائے لڑکراپنی جاں جانِ آفریں کے سپردکردی۔یہی وہ کردارہے جس کی بنا پرہم یوم عاشورہ کی یاد مناتے ہیں۔لیکن تاریخ کے جھروکوں کوبغوردیکھیں توہمیں حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ دومختلف قسم کے طریقہ کارکی علامت نظر آتے ہیں۔ہمیں جہاں حضرت حسین ؓسیاسی طریقہ کارکے علمبردار نظرآتے ہیں وہاں حضرت حسنؓ غیرسیاسی طریقہ کارکی حکمت کے میناردکھائی دیتے ہیں۔حضرت حسینؓ نے حاکم وقت کے ساتھ جنگ کرکے جوسیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں یہی مقاصدحضرت حسنؓ نے جنگ کے میدان سے واپسی کے ذریعے حاصل کئے۔اس اہم اورلطیف فرق کوسمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کی اس تصویرکے ہرپہلوکوبڑی ایمانداری سے دیکھناہوگا اوران تاریخی واقعات کو سامنے رکھ کران عظمتوں کی مینارہ ہدائت کواپنی قوموں کی زندگی کیلئے مشعلِ راہ بناناہوگا۔ حضرت حسن ؓنے اپنے والد کے پانچ سالہ خلافت کے پرآشوب زمانے میں مسلمانوں کو خود بھائیوں کی تلواروں سے ذبح ہوتے دیکھاتھااس لئے باہمی خون خرابہ اورنہ ختم ہونے والے سلسلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے خودمیدان سے ہٹ گئے اور خلافت کاعہدہ حضرت امیرمعاویہؓ کے حوالے کرد یا اگرچہ حضرت حسنؓ حق پرتھے اور امت کے جائزخلیفہ تھے۔ اس کے بعد دوعشرے(41ھ تا60ھ) تک حالات پرسکون رہے اوراسلامی سلطنت کی سرحدوں میں بھی خاصی توسیع ہوئی۔امیر معاویہ ؓکے انتقال (رجب60ھ) تک حالات بڑے پرسکون رہے لیکن جب خلافت کامسئلہ دوبارہ کھڑا ہوا تو امام حسینؓ جواپنے باپ کی شہادت اوربھائی کی خلافت سے دستبرداری سے خوش نہ تھے،انہوں نے یزیدکی خلافت سے اسی طرح انکارکیا۔یہیں سے امام حسینؓ (4ھ تا61ھ) کاوہ کردارشروع ہوتاہے جس کی یاداب یوم عاشورہ کومنائی جاتی ہے عتبہ بن ابی سفیان نے جب مدینے میں یزیدبن معاویہ کیلئے لوگوں سے بیعت لینے کاسلسلہ شروع کیاتوامام حسین نے معذوری کا اظہار کر دیا اورخاموشی کے ساتھ اپنے اہل وعیال کولے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔یہاں آپ کی آمد سے قبل مکہ کے لوگ عبداللہ بن زبیر پربیعت کرچکے تھے اوریہ صورتحال حضرت حسینؓ کوقابل قبول نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت حسینؓ اورآپ کے اہل خانہ ان کے پیچھے نمازنہیں پڑھتے تھے جو عملً ااس وقت مکہ کے حاکم تھے۔شہادت حضرت عثمانؓ کے بعدحضرت علی کرم اللہ وجہہ کیلئے مکہ ومدینہ کے حالات سازگارنہیں تھے جس کی بنا پر اسلامی ریاست کا دارلخلافہ36ھ میں مدینہ سے کوفہ منتقل ہو گیاتھا۔اس طرح امام حسن ؓنے بھی خلافت سے دستبرداری کے بعد41ھ میں کوفہ کوخیربادکہہ دیاتھااور مدینہ میں مستقل رہائش اختیارکرلی تھی۔ (جاری ہے)