ہم ناکام کیوں؟

بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پرکچھ کہنایالکھنا آسان نہیں ہوتا،زبان وقلم کی ساری صلاحیتیں ناکافی لگنے لگتی ہیں۔ خصوصاًایسے موضوعات جن کاتعلق ہماری ذاتی یاملی ناکامیوں سے ہو،وہاں ہماراخاص قومی مزاج خودپسندی اوررجحان راہ میں حائل ہوجاتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے دورمیں جب انسان مادی ترقی کی معراج پرپہنچ چکاہے، مسلم دنیاکے تصورکے ساتھ ہی ایک ایسی شکست خوردہ قوم کی تصویرابھرتی ہے جواپنے جوہرسے ناآشنااورمغربی دنیاکی اسیرہے جس کاکوئی متعین مقصد ہے نہ متعین پالیسی اورنہ منزل۔آج کوئی بھی مسلم ملک جدید علوم وتحقیقات کے میدان میں کسی قابل ذکر مقام پرنہیں کھڑا۔دنیابھر میں مسلمان عالمی دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔کہیں مسلمانوں کاوجود زنجیروں میں جکڑاہواہے توکہیں وہ نفسیاتی غلامی کاشکار ہے کہ اندھی تقلیدسے آگے کچھ بھی سوچنے سے قاصر ہے۔ یہ ہماری موجودہ ملکی صورتحال کی ایک جھلک ہے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی اپنی خامیوں اورکمزوریوں کااعتراف بڑے ظرف کاکام ہوتاہے اوراگراحتساب اوراصلاح کے جذبے کے ساتھ ہوتورب کی عظیم نعمت اور کامیابی کی طرف پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔یہاں ٹھہرکریہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت امت محمدﷺہمارے سامنے کامیابی کاتصورکیا ہے؟اس وقت امت مسلمہ جن بے دین تہذیبوں کے درمیان موجود ہے،ان کے سامنے تو کامیابی کا تصور ’’زیادہ سے زیادہ خوشیوں کے حصول اورقول وعمل کی آزادی‘‘سے زیادہ کچھ نہیں ہے جبکہ اسلامی الہامی نقطہ نظرکے مطابق کامیابی اورفلاح اللہ کی زمین پراللہ کی خلافت کی ذمہ داری اداکرتے ہوئے انسانی زندگی کوتابع امررب کرنااورپوری دنیاپرقرآن کا نظام نافذ کردیناہے۔اسی تصورکے تحت امت مسلمہ نے پہلے بھی دنیاکی امامت کامنصب حاصل کیاتھااوراب بھی اسلام کے غلبے کاراستہ یہی ہے۔ کامیابی کاراستہ،ترقی وخوشحالی کاراستہ،پستی سے نکل کرعروج کی طرف سفرکرنے کاراستہ،چند مہینوں یاسالوں کانہیں بلکہ قوموں کے عروج کا سفرصدیوں پرمحیط ہوتاہے اوراپنے افراد کی اتنی ہی جدوجہداورپیہم عمل کامتقاضی ہوتاہے۔ایک مشہور چینی کہاوت ہے، تمہارا منصوبہ اگرسال بھر کے لئے ہے توفصل کاشت کرو،دس سال کے لئے ہے تو درخت لگاؤاوراگر دائمی ہے توتربیت یافتہ افرادتیار کرو۔اس لحاظ سے معاشرے کی تعمیرکے لئے فرد کی تعمیرکاکام جتنااہم ہے،اتناہی نازک بھی ہے جس کے لئے ایک ایسے لائحہ عمل اورمربوط نظام تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے فردکی تعمیرعین مطلوبہ خطوط پرممکن بنائی جاسکے۔اس حوالے سے ایک موقع پر نیلسن منڈیلا نے کہا تھا،ہم دنیاکوتبدیل کرنے کے لئے سب سے زیادہ طاقتور اسلحہ کے طورپرتعلیم کو استعمال کرسکتے ہیں۔ کسی بھی قوم بلکہ تہذیب کی بقاواستحکام کے لئے تعلیم کی اہمیت بنیادی ستون کی سی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں علم سے مرادمحض حرف شناسی نہیں ہے بلکہ علم کا صحیح ترین تصورمعرفتِ الہی،معرفتِ کائنات، معرفتِ انسان اورمقصدزندگی کی صحیح معرفت پرمبنی ہے جس کا ماخذ قرآن ہے۔اسی علم سے مستفید ہونے والی نسل رب العالمین،کائنات اوراس کے اندر انسان کی صحیح حیثیت کو پہچان کرجب اپنی صلاحیتیں اورتوانائیاں مقصد زندگی کی طرف لگائے گی تو یقیناکامیابی اورترقی کی معراج حاصل کرکے رہے گی۔اگریہ بات ذہن نشین رہے کہ اس تعلیمی فارمولے پردمشق،بغداد، قاہرہ،قرطبہ اور سمرقند کے تعلیمی مراکزنے کام کیاتھااور اپنے زمانے کی امامت کامنصب سنبھالاتھاتوہماری نگاہیں کسی مغربی نظام تعلیم سے مرعوب نہ ہوں۔مگرالمیہ یہ ہے کہ خودوطن عزیزمیں سیکولراورلبرل تعلیمی فلسفہ ایک بڑامعیاربن کرابھراہے جبکہ اس بے دین ’’کوالٹی ایجوکیشن‘‘کے اثرات تمام دنیاپراس صورت میں رونما ہوئے ہیں کہ نفس پرستی اور دولت پرستی کے جذبات نسل انسانی کاخاصہ بن گئے۔ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرگیا معاشرتی جرائم میں ہوش ربا اضافہ ہوا اوربدترین اخلاقی گراوٹ نے احترام انسانیت کوپامال کردیاہے۔غرض کوئی تعمیری پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ہاں یہ ضرورہواکہ انسان کواپنے قول وفعل کی مکمل آزادی مل گئی اورزیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹنے کے لئے تمام ذرائع جائز قرار پاگئے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کایہ حال ہے کہ حاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرپراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبرپرہے جبکہ دنیابھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا160نمبرہے، ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کوقانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر139 ممالک میں سے130ویں نمبرپررکھاگیاہے۔ 1500یونٹ کو500یونٹ لکھنے والارشوت خورمیٹرریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکے ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والا قصائی،خالص دودھ کانعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والا دودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسندایس ایچ او،گھربیٹھ کرحاضری لگواکرحکومت سے تنخواہ لینے والامستقبل کی نسل کامعمار استاد ،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والادوکاندار،100روپے کی رشوت لینے والا عام معمولی ساسپاہی،معمولی سی رقم کے لئے سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنے والاوکیل، سو روپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسر کے لئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والا معمولی سا چپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکے ملک کا نام بدنام کرنیوالاکھلاڑی ، ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اور جھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااور فجرکواللہ اکبرسنتے ہی سونے والانوجوان، کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورایم این اے،لاکھوں غبن کرکے دس ہزارکے ہینڈپمپ لگانے والا جابر ٹھیکیدار، ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیر فروش کونسلر،غلہ اگانے کے لئے بھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چوہدری ، زمین کے حساب کتاب وپیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کامالک بنانے والا پٹواری اورریونیو آفیسر، ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پرکمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی، منبررسول پر بیٹھ کردین کے نام پرچندے اورنذرانے لینے والے مولوی اورپیرصاحبان اورہر کوئی سوشل میڈیاکوبغیر تحقیق کے بے تحاشہ استعمال کرکے خودکو بری الذمہ سمجھتا ہے اس دور میں اگرہم پرنئے اورپرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں،تویہ ہمارے اعمال کی سزانہیں تواورکیاہے؟