شکر یہ میاں شہبا ز اور اسحق ڈار !

قوم کو مبا رک اور میاں شہبا زشریف اور اسحق ڈار کا تہہ دل سے شکریہ کہ اب جواسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ روز مالی استحکام کی جائزہ رپورٹ برائے 2022جاری کی ہے اس میں اقرار کیا گیا ے کہ سال 2022 کے دوران پاکستان کے مالی نظام کی کارکردگی اور لچکداری مستحکم رہی ہے۔بلا مبالغہ یہ وزیرِ اعظم پا کستان میاں شہبا ز شریف اور وزیرِ خزانہ پا کستان اسحق ڈار کی انتھک کا ویشوں کا نتیجہ جس کی بناء پر وطنِ عزیزکا معاشی مستقبل اب مثبت ڈگر پر گامزن ہو چکا ہے۔ہماری معیشت کو ایک مشکل سال کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ناسازگار بیرونی ماحول کے نتیجے میں معاشی عدم توازن میں مزید شدت آ گئی تھی۔ رپورٹ میں پاکستان کی مشکلات میں اضافے کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں، جن مالی
خسارہ، مہنگائی کی بلند سطح، تباہ کن بارشیں اور سیلاب، آئی ایم ایف کے پروگرام کی تکمیل میں تاخیر کے ساتھ ساتھ اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ اور ترقی یافتہ معیشتوں کے اہم مرکزی بینکوں کی جانب سے سخت زری پالیسی جیسے عالمی چیلنجوں نے بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی جائزہ رپورٹ میں مزید بتایا کہ ان مشکلات سے قطع نظر، مالی شعبے نے ایسے دباؤ کے مقابلے میں لچکداری دکھاتے ہوئے مستحکم کارکردگی کا مظاہرہ کیا، 2022ء میں بینکاری کے شعبے کی اعانت کی بدولت مالی شعبے کے اثاثوں میں 18.3 فیصد نمو ہوئی۔ سال کے اختتام کے قریب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہتر ہوگیا۔ پاکستان جس معاشی اور مالی مالی بحران کا شکار تھا، اس کی سنگینی اب بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک کے پالیسی ساز،کاروباری حلقے اور عوام اس کی سنگینی اور شدت سے بخوبی آگاہ ہیں، اس کے باوجود پاکستان کی معیشت اور مالی شعبے نے لچکداری کا مظاہرہ کیا اور ملک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا۔ اس لچک کی بدولت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بہرحال اسٹیٹ بینک نے اپنی جائزہ رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ سال 23ء کے دوران جی ڈی پی کی نمو محض 0.29 فیصد ہوئی ہے۔ مالی استحکام کے جائزے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ 2022میں بینکوں کے اثاثوں میں19.1 فیصد کی مضبوط نمو دیکھی گئی جب کہ قرضوں میں کمی آئی تھی، مالی استحکام کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی دباو اور ٹیکس اور فنانسنگ لاگت میں اضافے کی وجہ سے غیر مالی کارپوریٹ شعبے کی آمدنی میں معتدل کمی ہوئی۔ تاہم، صفِ اوّل کی 100 فہرستی کمپنیوں کی مجموعی مالی صورتِ حال مستحکم رہی اور عمومی طور پر کارپوریٹ شعبہ مالی اداروں کی ذمے داریوں کو بدستور پورا کرتا رہا، اسٹیٹ بینک کا نگران فریم ورک مالی استحکام کو درپیش کسی فرم یا مجموعی نظام سے متعلق خطرات کی فعال انداز سے نگرانی اور جانچ کرتا ہے، اور ان خطرات سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کرتا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے سخت شرائط بھی تسلیم کی ہیں کیونکہ ایسا کرنا انتہائی ضروری ہو چکا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی وجہ سے مہنگائی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ حکمران بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کریں گے۔ اسی طرح ملک کا سرمایہ دار طبقہ بھی مالی قربانی دے گا۔ ایسا ہوتا ہے تو پاکستان مالی مشکلات سے نکل جائے گا۔ادھر ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی حمایت کی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں تو اس معاہدے کی حمایت کر ہی رہی ہیں تاہم تحریک انصاف نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی حمایت کر دی ہے جو کہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ (جاری ہے)