نکاح…سماجی زندگی کی بنیادی اکائی

بحیثیت مسلمان زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام ہمارے لیے رہنما اصول متعین کرتا ہے۔ اعتقادات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات سے لیکر تہذیبی اور ثقافتی روایات تک ہم کسی کے محتاج نہیں۔ اپنی حدود میں رہ کر پروقار اور مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ چند عبادات کو دین سمجھ لیا ہے اور باقی معاملات میں ہم دین سے کچھ لینے کی بجائے دوسروں کی نقل کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں یا اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ اس سے کئی ایک مسائل اور مشکلات جنم لیتے ہیں اور پس پردہ مورد الزام” اسلام “ کو ٹھہرایا جاتاہے جو کہ خلاف حقیقت اور سراسر غلط ہے۔
شادی کا بندھن انسانی سماج کا نقطہ آغاز ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نکاح کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن پاک نےاسکے احکامات اور اصول بیان کیے اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ اور ازواج مطہرات کی سیرت پاک اس مناسبت سے ہم سب مرد و زن کیلئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح کے اچھے برے اثرات پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس میں بیجا تاخیر، بے اعتنائی اور عدم احتیاط اخلاقی اقدار کے زوال کو جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نکاح انسان کی ایک فطری ضرورت ہے لہذا اس سے انحراف یا صرف نظر ، جبلی اور پیدایشی جنسی تقاضوں کو کالعدم قرارنہیں دے سکتا۔ ایسے مسلمان معاشرے جہاں بلوغت کے دس تا پندرہ سال بغیر شرعی اور مسنون نکاح کے گزارنا ایک عام روایت بن جائے، وہاں فحاشی، بدکاری اور بے راہ روی کا پھیلنا کوئی زیادہ حیرت انگیز امر نہیں ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے آج ہر جگہ جذبات کو برانگیختہ کرنے والے کئی عوامل بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ نام نہاد مسلمان معاشروں میں فیشن کے نام پر بے پردگی اور فلموں و ڈراموں کے ذریعے بےحیائی پر مبنی عشق و محبت کی داستانیں عام ہیں حالانکہ ان تمام خرافات کا اسلامی طرز زندگی سے تعلق نہ کوئی واسطہ بلکہ محرمات اور ممنوعات کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان حالات میں شادی کی ضرورت و اہمیت اور بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔اسلام نے شادی کو جتناآسان بنایا آج ہمارے معاشرے کے ڈھانچے میں اس کو اتنا ہی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ہمیں اس بات کو یاد رکھنا ہے کہ شادی انسانی زندگی کا وہ بنیادی پتھر ہے جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں خاندانی نظام توڑ پھوڑ، افراتفری اور اضطراب کا شکار ہو تو پھر سونا اگلتی زمینیں، لہلہاتے کھیت، دولت کی ریل پیل، پر تعیش گھر،لگژری گاڑیاں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل شدہ سہولیات کےباوجود بھی زندگی سکون سے محروم رہتی ہے بلکہ حالیہ دنوں کے افسوسناک واقعہ کی طرح لوگ خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد پر غور وخوض کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ نکاح کے بابرکت اور مسنون معاہدے کو بے جا رسم ورواج، غیر اخلاقی شرطوں اور بےتحاشا اخراجات کی وجہ سے ہم نےخود ہی برکتوں سے محروم اور مشکل ترین بنا دیا ہے ۔ اسلام معتدل تعلیمات پر مبنی مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف مشرقی ہے نہ مغربی بلکہ اس کا منبع تو وحی الہی ہے اور ایک ایسی ذات باری تعالیٰ کا وضع کردہ ہے جو ہر دور کے تقاضوں سے ہر لمحہ واقفِ حال ہے لہٰذا ہمارا کام جدید و قدیم یا مشرقی و مغربی روایات میں الجھنا نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں یہ پرکھنا ہے کہ کیا یہ روایات اسلامی مزاج اور تعلیمات کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔ جب تک یہ جرات اور بصیرت ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم ہندوستانی، مغربی اور خود ساختہ ثقافتی یلغار کے شکار رہیں گے۔ اس طرح ہماری اجتماعی زندگی کی رہی سہی اقداربھی خطرے کا شکار رہیں گی۔ شادی ایک ایسا بندھن ہےجو انسان کو ذہنی پختگی عطا کرکے باوقار اور پاکیزہ زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی تکمیل اپنےجیون ساتھی سے مل کر ہی ہوتی ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ برکتوں والا ہوتا ہے۔ ان کا آپس میں خوش اسلوبی کا تعلق بھی رضائے الٰہی کا سبب ہوتا ہے۔ دین اسلام انسان کے فطری جذبات کی قدرکرتا ہے اور انہیں صحیح ڈگر پر رکھنے کیلئے مکمل رہنمائی عطا کرتا ہے۔ اسی لئے شادی کو اسلام میں بہت اہمیت دی گئی۔ دعا ہے کہ ہمارے گھروں میں سادگی اورپرہیزگاری عام ہو جائے۔ ہم اپنے بچوں کی عمدہ تربیت کی طرف متوجہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ سلو ک و اتفاق عطا کرے اور گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے میاں بیوی کے درمیان جو نفاق اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اس سے محفوظ رکھے۔ (آمین)