حکومتی معاہدہ اور عدالتی فیصلے

(گزشتہ سے پیوستہ) سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے مذکورہ فیصلوں پر من و عن عملدرآمد نہ ہونے اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم جاری رہنے پر تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے جنرل سیکرٹری نے 2018ء میں ایک دفعہ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے رٹ پٹیشن نمبر 3239/2018 بعنوان حافظ احتشام احمد بنام وزیراعظم پاکستان وغیرہ میں کے فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے مذکورہ فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران ہی پی ٹی اے کے حکام نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پر نظر رکھنے اور ایسے کسی بھی مواد کو اپلوڈ ہوتے ہی بلاک کرنے،ہٹانے کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی سیل قائم کر دیا ہے،پی ٹی اے میں قائم کیا گیا مذکورہ خصوصی سیل ہی آج تک سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کے لئے ایک حدتک متحرک ہے،سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے مذکورہ فیصلوں کے باوجود بھی مناسب اقدامات نہ کئے گئے

اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں اضافہ ہی ہوتا گیا تو 2019 میں تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے ایک دفعہ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ فاضل چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل نمبر 211/2019 بعنوان حافظ احتشام احمد بنام وفاق پاکستان وغیرہ کے فیصلے میں وفاقی حکومت بالخصوص ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو حکم دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف سلمان شاہد کیس میں عدالت عالیہ کی جانب سے دیئے گئے احکامات پر سختی سے عملدرآمد کرتے ہوئے اقدامات کرے،ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب اور اس میں ملوث مجرمان کا سراغ لگانے کے لئے وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت دفاع کے ماتحت انٹیلی جنس ایجنسیز کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ عدالت عالیہ نے وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت دفاع کے ماتحت خفیہ اداروں کو ایف آئی اے اور پی ٹی اے کی مدد کرنے کا پابند کیا تھا،یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ جب سے تعزیرات پاکستان میں توہین رسالت کی دفعہ 295 سی شامل کی گئی،اس وقت سے لے کر اب تک بدقسمتی سے توہین رسالت کے مرتکب کسی ایک شخص کی سزائے موت پر بھی آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا،اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے قوانین میں موجود وہ پیچیدگیاں اور خامیاں ہیں کہ جس کا سہارا لیتے ہوئے توہین رسالت کے مرتکب مجرمان آج تک سزائے موت پر عملدرآمد سے بچتے چلے جارہے ہیں۔اس حوالے سے بھی تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے 2020 ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں عدالت عالیہ سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث توہین رسالت کے مرتکب مجرمان کے ٹرائل اور ٹرائل کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر فیصلے کے لئے ایک مدت کے تعین کے لئے وفاقی حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ توہین رسالت کے مرتکب سزا یافتہ مجرمان کی سزائوں پر عملدرآمد بھی ممکن ہو سکے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ فاضل چیف جسٹس عامر فاروق نے ہی مذکورہ رٹ پٹیشن نمبر 2120/2020 بعنوان حافظ احتشام احمد بنام وفاق پاکستان وغیرہ کے فیصلے میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث مجرمان کے خلاف مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرکے ٹرائل کورٹس کو جلد فیصلے کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو مذکورہ رٹ پٹیشن میں کی گئی استدعا کی روشنی میں مناسب قانون سازی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی،لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے 2021 MLD 1633 لاہور بعنوان لقمان حبیب وغیرہ بنام وفاق پاکستان وغیرہ میں احکاما ت صادر کرتے ہوئے پیرا نمبر ایک میں وفاقی حکومت(وفاقی وزارت آئی ٹی،داخلہ،مذہبی امور)کو پی ٹی اے میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے،جس میں آئی ٹی کے ماہرین اور اسلامک سکالرز کو لازمی طور پر شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔ مذکورہ کمیٹی کو سوشل میڈیا پر اسلام اور پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم،مواد پر نظر رکھنے اور ایسے مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے کی ہدایت کی گئی تھی،پیرا نمبر دو میں آئین پاکستان کے آرٹیکل ٹو اے کے تحت اسلام کی ترویج اور اسلام کے تحفظ کو وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت (وفاقی وزارت مذہبی امور،وفاقی وزارت داخلہ،وفاقی وزارت آئی ٹی)کو ایک ایسی سرکاری ویب سائٹ، پورٹل بنانے کا حکم دیا تھا،جس میں نامور سکالرز،عالم دین کی جانب سے لکھی گئی قرآن کریم کی تفسیر، مصدقہ اسلامی کتابیں،ختم نبوت ﷺ کے متعلق قوانین،ختم نبوت ﷺ اور ناموس رسالت ﷺ کے متعلق آرٹیکلز اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو عوام کی آگاہی کے لئے اپلوڈ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ( جاری ہے )