جوڈیشل کمیشن کام شروع، سپریم کورٹ میں چیلنج

جوڈیشل کمیشن نے کام شروع کر دیا، مختلف ہدایات: دائرہ کار کی تفصیلی ہدایات، کسی جج کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی: جسٹس قاضی فائز عیسیٰO ’’جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں چیلنج، ’’غیر قانونی ہے، چیف جسٹس کی منظوری کے بغیر بنایا گیا ہے، کسی کی کالیں ریکارڈ کرنا غیرقانونی حرکت ہے‘‘ بابر اعوانO ’’کسی کی فون کال ٹیپ کرنا بڑا جرم ہے، کابینہ ختم ہو سکتی ہے‘‘ اعتزاز احسنO 25 مئی کو یوم تکریم شہداء منایا جائے گا، آرمی چیف جنرل عاصم منیرO’’جنرل عاصم منیر نے سابق وزیراعظم عمران خان کو بشریٰ بیگم کی کرپشن کے بارے بتایا تو عمران خان نے برہم ہو کر جنرل کو آئی ایس آئی کے عہدہ سے تبدیل کر دیا‘‘ وزیراعظم شہباز شریف، قومی اسمبلی میں تقریرO شیریں مزاری تیسری بار گرفتار، پنجاب پولیس نامعلوم جگہ پر لے گئیO بشریٰ بی بی، احتساب عدالت نے ضمانت منظور کر لی، 5 لاکھ روپے کے مچلکےO عمران خان اور بشریٰ اسلام آباد میں عمران خان نے زمان پارک لاہور کے مکان کا لگژری ٹیکس 14 لاکھ 40 ہزار روپے ادا کر دیاO بلاول زرداری، آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب، ’’کشمیر کے ک حرف کے بغیر پاکستان کا نام نامکمل ہے‘‘ O’’الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے، سپریم کورٹ تاریخ نہیں دے سکتی‘‘ سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کا جوابی بیان O عمر ایوب نے فوجی عدالتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔O ’’میں نے فوج پر تنقید کی تو کیا ہوا؟ بچوں پر بھی تو تنقید کر لیتا ہوں‘‘ عمران خانO پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہو گئی، مردم شماریO ’’پنجاب میں الیکشن کے لئے سکیورٹی کا انتظام مشکل ہے‘‘ سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کا موقف۔٭ …بہت سے اہم معاملات اکٹھے ہو گئے ہیں۔ سارے ہی اہم ہیں۔ اس وقت وفاقی حکومت کی طرف سے سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس فائز عیسیٰ کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کا قیام زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔ کمیشن نے گزشتہ روز جسٹس فائز عیسیٰ کی عدالت میں ہی کام شروع کر دیا۔ انہوں نے ایک وضاحت بھی کی ہے کہ کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کام نہیں کر رہا، صرف ان کی اور دوسرے افراد کی بعض فون کالوں کی تصدیق یا تردید کرے گا! فاضل جج صاحب کی باتوں سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی طلب کر سکتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے واضح کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کو سپریم جوڈیشل کونسل کی حیثیت اور اختیارات حاصل نہیں۔ وہ کسی کو سزا نہیں دے سکتا۔ ٭ …سپریم کورٹ میں عمران خان کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کو اپنے وکیل بابراعوان کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس میں متعدد قانونی و آئینی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ اہم ایک اعتراض یہ ہے کہ کمیشن صرف چیف جسٹس کی منظوری کے ساتھ ہی بن سکتا ہے، موجودہ کمیشن کے بارے میں ایسا نہیں کیا گیا، دوسرے یہ کہ سپریم کورٹ 1999ء کے ایک فیصلہ میں کسی کی فون کال کوٹریس اور ریکارڈ کرنا جرم ہے، کوئی کمیشن کسی جُرم کی حمائت میں کام نہیں کر سکتا، یہی بات ممتاز قانون دان چودھری اعتزاز احسن نے زیادہ زور کے ساتھ کہی ہے کہ کسی کا فون ریکارڈ کرنا سنگین جرم قرار پا چکا ہے، موجودہ حکومت اس جرم کی مرتکب ہوئی ہے، اس پر پوری کابینہ اور حکومت فارغ ہو سکتی ہے۔ ٭ …قارئین کرام محسوس کر رہے ہوں گے کہ موجودہ دل خراش حالات نے سپریم کورٹ جیسے عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کو بھی افسوسناک تقسیم کی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک عرصے سے چیف جسٹس کے خلاف سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ مختلف انداز میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے بنچوں کے قیام، چیف جسٹس کے بعض انتظامی اقدامات، ان کے ظہرانے میں عدم شرکت اور براہ راست چیف جسٹس کے نام کھلی نکتہ چینی کے خطوط، واضح طور پر دو سینئر ججوں کے درمیان کشیدگی ظاہر کرتے ہیں اس کا اثر پوری سپریم کورٹ (17 جج) پر بھی پڑ رہا ہے ان کی گروپ بندیاں ہو گئی ہیں۔ اس موقع پر ’میں‘ سرفراز سید، نہائت ادب و احترام کے ساتھ اس صورت حال پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایک سینئر شہری کی حیثیت سے دونوں بڑے منصفین سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب والا، آپ حضرات کی چپقلش کے بارے بھارتی میڈیا کے طنزآمیز تبصرے ذہنوں پر بہت بوجھ ڈال رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے بعض گماشتوں اور حاشیہ برداروں نے جس طرح انتہائی توہین آمیز انداز میں چیف جسٹس کی ذات کو مستقل نشانہ بنائے رکھا ہے، اس پر محترم چیف جسٹس صاحب نے حوصلے اور تحمل کا قابل ستائش مظاہرہ کیا ہے۔ اس عدالت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ، افتخار چودھری اور ثاقب نثار، ذرا ذرا سی بات پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیا کرتے تھے، ازخود اختیارات استعمال کر کے بڑی بڑی شخصیتوں کو عدالتوں میں طلب کر کے اپنی نفسیاتی برتری کی تسکین حاصل کرتے تھے۔ محترم جسٹس عمرعطا بندیال صاحب! آپ کے بعض اقدامات اور فیصلے بلاشبہ متنازع قرار پاتے ہیں مگر آپ نے اپنی ذات پر ناروا حملوں کو قابل قدر انداز میں برداشت کیا ہے۔ ویسے بھی آپ نے 16 ستمبر کو اس جلیل منصب سے فارغ ہو جانا ہے، تقریباً ساڑھے تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ٭ …چند الفاظ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ جناب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے لئے۔ جناب محترم! آپ کے عظیم والد قاضی محمد عیسیٰ، قائداعظم کے کوئٹہ میں اپنے گھر میں ایک ماہ تک میزبانی کا عظیم شرف حاصل کر چکے ہیں وہ بہت دھیمے مزاج کے نرم گو، اعلیٰ دانش ور، بلوچستان میں مسلم لیگ کا پہلا رکن بننے کا اعزاز رکھنے والے مدبر انسان تھے، انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی تنظیم کی، کسی بھی چپقلش سے دور رہتے تھے، قائداعظمؒ جیسے سخت مزاج عظیم شخص کا ان کے ساتھ ایک ماہ تک قیام نشان دہی کرتا ہے کہ جناب والد صاحب بہت روادار اور بردبار شخص تھے۔ ان کی عظیم روایات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جناب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب! میرے خیال میں آپ کا نام لے کر آپ کے محترم والد صاحب کے صفات کا بیان کافی ہے۔ ٭ …چودھری اعتزاز احسن نے بالکل درست کہا ہے کہ دوسروں کی پرائیویسی کا کھوج لگانا، اسے سرعام مشتہر کرنا، اخلاقی کے علاوہ سخت قانونی جرم ہے۔ ان کالموں میں بیان کر چکا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء میں حکومت سنبھالی، چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدوں پر تو کوئی مسئلہ پیش نہ آیا مگر 1973ء میں آئین تیار کرنے کے بعد وزیراعظم بنے تو انہیں شکائت پیدا ہوئی کہ ان کے دفتر اور گھر میں وزراء اور عزیز و اقارب کے ساتھ ہونے والی خفیہ باتیں فوراً باہر پہنچ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن (مرحوم) نے مجھے دلچسپ بات بتائی کہنے لگے ’’بھٹو بہت پریشان تھے کہ ان کی کوئی بات راز میں نہیں رہتی۔ میں نے ایک سیاست دان کی بجائے تجربہ کار انجینئر کے طور پر جائزہ لیا (ڈاکٹر صاحب سینئر انجینئر، انجینئرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے) اچانک میری بھٹو صاحب کے بیڈ روم میں ٹیلی فون پر پڑی۔ میں نے ایک پیچ کس سے اسے کھولا تو اس کے اندر بات چیت ریکارڈ کرنے کا چھوٹا سا آلہ لگا ہوا تھا جو بھٹو صاحب کی بیگم صاحبہ کے ساتھ بات چیت بھی نشر کر دیتا تھا۔ پورے گھر اور دفتر کے تمام ٹیلی فونوں میں اس قسم کے آلات لگے ہوئے تھے۔ ٭ …خود کو بہت سمجھدار اور مدبر قرار دینے والے ’بڑے بڑے‘ نام ایک دوسرے کو خاک میں ملانے کے لئے کس طرح ملک و قوم کے وقار اور ساکھ کو خاک میں ملا رہے ہیں، ملک سے باہر ان حرکتوں پر کیا شرم ناک تذکرے ہو رہے ہیں؟ ایک دوسرے کی مائوں بہنوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ زیادہ افسوس کہ خود خواتین بھی ان بے ہودہ باتوں میں الجھ گئی ہیں۔ نوازشریف، آصف زرداری، عمران خان، سب کے سب پاک فوج کے جس طرح دَرپے رہے، ان کی باتوں کو دہرانے سے بھی اذیت ہوتی ہے۔ فوج ایک عرصہ تک خاموش رہی (اپنا کام کرتی رہی!) عمران خان نے فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی انتہا کر دی، پھر فوج کی طرف سے آئی ایس پی آر والوں نے سخت جواب دیا۔ ہر بات باہر کے میڈیا میں نمایاں ہوتی رہی۔ اب نیا مسئلہ سامنے آیا وزیراعظم شہباز شریف سے نئے آرمی چیف نے عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کی کسی کرپشن کی بات کی جس پر غضبناک ہو کر بطور وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدہ سے تبدیل کر دیا تھا (وزیراعظم کو اختیار ہوتا ہے) اور وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں سرعام یہ ساری بات بیان کر دی!! فوراً ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز آف انڈیا تک پہنچ گئی!! سب ایک جیسے ہیں، کیا بیان کروں سوائے ماتم یک شہرِ آرزو!!